ٹین ایج بچیاں اور ماؤں کی ذمہ داریاں

Teenage Girls

Teenage Girls

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس
عمر کے ساتھ ساتھ ہر انسان کے رویے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ایک قدرتی امر ہے۔ خاصطور پر بچوں کے معاملے میں یہ بات اور زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ کیوں کہ یہ ہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچوں کی مثال کمہار کے ایک ایسے برتن کے جیسی ہوتی ہے جو بظاہر تو چاک پر ہی ایک شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے لیکن ابھی اس کے لچکتے وجود کو پختگی اور سمجھداری کی تپش کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ وہ دھڑام سے بنانے والے ہی کے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈھیری کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔

13 سال سے لیکر 19 سال تک کی عمر بچوں میں جسے ہم ٹین ایج بھی کہتے ہیں، ایک خاص دور ہوتا ہے اس میں ماں کو بچوں کے لیئے اور باپ کو بیٹوں کے لیئے بہت ذیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ عمر کا یہ ہی وہ حصہ ہوتا ہے جس میں یا تو آپ اللہ کے کرم سے کامیاب ہو جاتے ہیں یا پھر اپنی ناسمجھی سے ناکام ہو جاتے ہیں۔ آج ہم خاص طور پر اس عمر کی بچیوں کی مزاجی تبدیلی پر بات کرتے ہیں۔ اکثر ہم گھروں میں دیکھتے ہیں کہ بچیوں کے شوق لڑکوں سے جدا ہوتے ہیں جیسے انہیں ماؤں کی جیولری، کپڑوں اور میک اپ کو خود پرٹرائی کرنا بہت پسند ہوتا ہے۔ چاہے وہ ان میں کارٹون ہی کیوں نہ لگیں۔ بس یہ انکے لیئے کشش کا باعث ہوتا ہے کہ ہماری ماں یہ سب لگاتی ہیں اور اچھی لگتی ہیں تو ہم بھی اچھے لگیں۔ اچھا لگنے کی یا شاباش لینے کی خواہش بچیوں میں ضرور موجود رہتی ہیں اور اسکا کسی بھی انسان اور خاص طور پر بچوں میں ہونا کوئی عیب نہیں ہے۔ ہاں انہیں پیار سے یہ بات دوستانہ انداز میں ماؤں کو باتوں باتوں میں بتاتے رہنا چاہیئے کہ بیٹا آپ کی عمر میں کیا چیز آپ کے لیئے اچھی ہے یا آپ پر اچھی لگتی ہے، یا کس کس چیز یا میک اپ سے آپ کی نازک جلد خراب ہو سکتی ہے، آپ کے پیارے سے چہرے پر ہمیشہ کے لیئے کوئی بھی میک اپ میں شامل جزو داغ چھوڑ سکتا ہے۔ اس لیئے آپ کو 20 سال کی عمر سے پہلے وہ چیز چہرے پر ٹرائی نہیں کرنا چاہیئے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس عمر کے بچوں پر بیجا ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

Daughters

Daughters

اس عمر میں ہونے والی ذہنی اور جسمانی تبدیلیاں دوران خون کو خاصا تیز کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ بچے بہت اتھرے ہیں یا ہائیپر ہیں، جوشیلے ہیں وغیرہ اس لیئے ایسے بچے اکثر بہت بحث کرتے ہیں یا بہت ذیادہ سوال کرتے ہیں۔ انہیں ” یہ نہ کرو “کیوں کہ میں نے کہاہے، کہہ کر مطمئین نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ انہیں ہر بات کہ وجہ چاہیئے ہوتی ہے۔ کئی مائیں تو کیا باپ بھی جہالت کی حدوں کو پار کرتے ہوئے بیٹے ہی نہیں جوان بیٹیوں کو بھی دوسروں کے سامنے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ذلیل کرنے یا انہیں مارنے پیٹنے سے بھی احتراز نہیں کرتے۔ کئی گھروں میں تو بیٹیوں کو مارنا غالبٓٓا بڑی شان سمجھا جاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہماری مار کے ڈر سے ہی ہماری بیٹی کسی برائی میں نہیں پڑی توایسے تمام خوش خیال جاہل والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں جب لڑکی نے آپکو تارے دکھانے ہیںتو وہ پنجرہ توڑ کر بھی فرار ہو سکتی ہے یہ سوچے بنا کہ اس کے ساتھ آگے ہو گا کیا ؟ لیکن جس کی فطرت میں پاکیزگی ہے اسے بے دھڑک بھی چھوڑ دیں تو بھی وہ کسی گندگی میں شامل نہیں ہو گی کیوں کہ عورت کی فطرت میں حیا اللہ نے شامل کی ہے۔ جبکہ جو لڑکیاں ان برائیوں میں مبتلا ہوتی ہیں اس میں ان کے والدین اور خاص طور پر ماں ہی قصوروار ہوتی ہے۔ جو بچی کی عمر کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو سمجھنے کے بجائے اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا بڑی بہادری سمجھتی ہے۔

پچھلے دنوں فیس بک پر ایک ویڈیو بڑے ٹھٹھے کیساتھ چلی، جس میں ایک ٹین ایج لڑکی گھر سے کسی اور ڈریس میں نکلی اور باہر آکر اس نے اپنے کپڑۓ بدل لیئے جبکہ نیچے اس نے پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ ماں نے اسے پیچھے کہیں دیکھ لیا اور گلی ہی میں خوب واویلہ کیا ور اس جوان بچی کو انتہائی ظالمانہ انداز میں مارا پیٹا اور بالوں سے گھسیٹتی ہوئی گھر لے گئی۔ اس وقت ہمیں بہت افسوس ہوا جب ھاھاھا لکھ کر اس وڈیو کو شئیر کیا گیا۔ کیسی بے غیرتی کی بات ہے ان بھائیوں کے لیئے جو بہن کو ایسے شرمسار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ اس لڑکی کی ایک خواہش تھی کہ وہ پینٹ شرٹ میں سکول جائے تو ماں کو نہیں پسند تو اسے بچی کو پہلے ہی ذہنی طور ہر محبت سے یہ بات سمجھانی چاہیئے تھی کہ بیٹا ہمیں آپ کا یہ لباس پہننا اچھا نہیں لگتا۔ تو شاید بچی بھی اپنی پسند پر غور کر لیتی یا اسے یہ کہا جاتا کہ اس پینٹ کے ساتھ شرٹ لانگ استعمال کرو تو آپ پر اچھی لگے گی تو بھی بات سمجھ میں آ جاتی۔ اس عمر کی بچوں کو اپنے منہ پر میک اپ ملنا ہے اور کہنے پر بھی ٹرائی کرنا ہے تو کرنے دیں کیوں کہ ان کا دل جلد ہی اس سے بھر جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ ٹین ایج سے نکلنے تک انکا سارا شوق ختم ہو چکا ہو گا جبکہ آپ نے ان پر بیجا سختی کی تو یہ کام تو انہوں نے کرنا ہی ہے سامنے نہیں تو چھپ کر کریں گی۔ تو کیا فائدہ۔ دوسری بات ہماری بہنوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کسی بھی بچی کی عمر دیکھے بنا اس پر اعتراض کرنے کا۔ اپنی بیٹی چاہے ان کی حرکتوں سے باغی ہو کر کہیں بھی منہ کالا کروا لے، وہ اپنی آنکھ کا شہتیر انہیں دکھائی نہیں دیگا لیکن کسی کی بچی نے ٹین ایج میں منہ پر میک اپ نام کا کوئی لال پیلا رنگ لگایا ہو تو فورا اس بچی میں اخلاقی اور شرعی عیب ڈھونڈنے کی مہم پر روانہ ہو جائیں گی۔

Women

Women

معذرت کیساتھ آجکل کی نام نہاد تہجد گزار اور وظیفہ پڑھے والی خواتین میں یہ عیب عروج پر ہے۔ حالانکہ وہ اپنی عمر میں یہ سب کچھ کر چکی ہیں مگر پوچھنے پر خود کو پیدائشی حاجن بی بی ثابت کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔ گویا یہ کہنا ہی باقی ہوتا ہے کہ جی ہم تو ” دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں” کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔ آپ نے اکثر ایسی بزرگ خواتین 50 سال سے اوپر کی بھی دیکھی ہوں گی کہ جو پورا بیوٹی پارلر بن کر باہر نکلتی ہیں۔ عجیب سے نیلے پیلے کپڑے ، بڑے بڑے بندے ، دونوں کلائیاں ہر طرح کی چوڑیوں سے بھرے، خوفناک میک اپ۔ جی ہاں یہ وہی خواتین ہوتی ہیں جن کا ٹین ایج انتہائی تکلیف میں گزرا ہوتا ہے۔ انہیں اپنی مرضی سے ننھی منھی خواہشیں پوری کرنے کی اجازت بھی کبھی نہیں دی گئی اور وہ حسرتیں ان کے دل میں پلتی رہیں نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کے بعد بھی کئی گھروں میں ان پر بیجا پابندیوں نے ان کے اس شوق کو اور ہوا دی اور بڑہاپے میں جب انہیں اختیارات ملے تو انہوں نے اپنے شوق پورے کرنے شروع کر دیئے۔ ہو سکتا ہے دیکھنے والوں کے لیئے یہ ہنسنے کی بات لگتی ہو۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کے ایسے شوق کی وجوہات کو سمجھنا چاہیئے۔ اور ان سے ہمدردی رکھنی چاہیئے۔ اگر آپ بھی چاہتے ہیں کہ کل کو اپکی بیٹی کو بھی کوئی دیکھ کر اس کا مذاق نہ اڑائے تو خدارا اپنی ٹین ایج بچیوں کی دوست بنیں اس کوپیار سے اپنی تہذیب سکھائیں۔ انہیں سوشل ایونٹس میں بھی اپنے سارتھ رکھیں تاکہ انہیں لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا، بات کرنا اور لوگوں کو سمجھنا آئے۔ کیوں کہ آخر کو انہوں نے نئے لوگوں میں بھی بیاہ کر جانا ہے تو اگر آج وہ لوگوں کو سمجھ سکیں گی تو اپنے گھروں کو جلد اچھے سے سنبھالنے کے بھی قابل ہو جائیں گی کہ یہ خود اعتمادی آپ ہی کی دی ہوئی ہو گی۔ ماں کی محبت اور سمجھداری عورت کی ہر عمر میں اس کی عادات سے جھلکتی ہے۔ اگر مائیں بچیوں کی دوست ہوں توانہیں کبھی زندگی میں کسی دوست کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے بچے دوستوں میں رہنا ذیادہ پسند کرتے ہیں یا آپ کیساتھ کہیں جانے پر تیار نہیں ہیں تو اپنے رویے پر غور کریں کہیں وہ آپ کی صحبت سے نالاں تو نہیں ہیں۔ غور کریں اور اپنے رویے کا جائزہ لیں۔ اگر آپ کو اپنے بچوں سے محبت ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس