لاہور (جیوڈیسک) انیس سو اناسی کے انقلاب ایران کے بعد ریاض اور تہران کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی بڑھتی گئی۔ انیس سو اسی کی دہائی میں ایران، عراق جنگ کے باعث بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری رہی۔ انیس سو ستانوے کے دسمبر میں سعودی عرب کے شہزادہ عبد اللہ اسلامک سمٹ میں شرکت کے لئے ایران گئے، جس کے بعد دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں خوشگوار تبدیلی آئی۔ انیس سو ننانوے میں دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بڑا بریک تھرو ہوا، جب ایران کے صدر محمد خاتمی نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔
دو ہزار ایک میں محمد خاتمی صدر منتخب ہوئے تو شاہ فہد نے انہیں مبارک باد دی۔ دو ہزار ایک میں ہی تہران اور ریاض کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر دستخط ہوئے۔ دو ہزار تین میں امریکا نے عراق پر چڑھائی کی۔ دو ہزار چھ میں لبنان اسرائیل جنگ کے دوران بھی دنوں ممالک کے درمیان سرد جنگ اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا۔
اور اب گزشتہ کچھ عرصے سے شام کے معاملے پر سعودی عرب اور تہران کے درمیان ایک بار پھر سفارتی تعلقات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ سعودی حکام ایران پر شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت اور مدد کا الزام لگاتے ہیں، جبکہ ایران شام میں سعودی عرب کی مداخلت کو خانہ جنگی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
دو ہزار گیارہ میں عرب اسپرنگ کے بعد سعودی عرب کے مشرقی صوبے اور شعیہ اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے، جن کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب میں ٹینشن بڑھ گئی۔
یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب نے فضائی کارروائی کا فیصلہ کیا تو ایک بار پھر ایران کی طرف سے تند و تیز بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی نے یمن میں سعودی حملوں کو جرم اور قتل عام قرار دیا۔ سانحہ منیٰ کے بعد بھی تہران کی طرف سے سعودی حکام پر شدید تنقید کی گئی اور سفارتی فضاء کشیدہ ہو گئی۔