تحریر : عماد ظفر بالآخر ایک مختصر سے وقفے کے بعد عمران خان نے سڑکوں پر پھر ” سیاسی تماشہ” لگانے کا اعلان کر دیا. 17 اگست سے تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا.اس اعلان کو دیکھ اور سن کر اس مشہور مہاورے کی یاد آئی کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے. جناب عمران خان نے ایک دائرہ کھینچا ہوا ہے اور اس دائرے میں مقید گول چکر کاٹنے کو شاید وہ منزل کی طرف بڑھتے قدم سمجھتے ہیں. اگست کے مہینے میں پہلے بھی عمران خان دھرنہ دے کر دیکھ چکے ہیں اور اس دھرنے کی قیمت پاکستان نے چکائی تھی. اس دفعہ پھر پس پشت قوتوں کی شہ پا کر عمران خان احتجاج کرنے کی تیاریوں میں ہیں.فہم سے بالاتر ہے کہ عمران خان کو بار بار ناکام ہونے کے مشورے آخر دیتا کون ہے۔
خیر اس وقت سوال یہ ہے کہ احتجاج اور جلاو گھراؤ سے کیا حکومت کی چھٹی کروائی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب اس وقت تک نفی میں ہے.سول سوسائٹی میں اس وقت عمران خان کے مارشل لا دوارے بیانات اور طالبان کے حق میں پالیسی کے ان کے جھکاؤ کو لے کر تشویش پائی جاتی ہے. یعنی سول سوسائٹی کسی بھی احتجاجی تحریک میں عمران خان کا ساتھ دینے سے گریز کرے گی.وکلا کی بار ایسوسیشنز میں بھی عمران خان کو جمہوریت کا دوست نہیں سمجھا جاتا.تاجر برادری کم سے کم پنجاب کی حد تک زیادہ تر مسلم لیگ نون کے حق میں ہے.دوسری جانب چند مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر عمران خان کو کسی بڑی مذہبی جماعت کی حمایت بھی حاصل نہیں. بلوچ قوم پرست بھی عمران خان اور ان کی جماعت سے کچھ زیادہ خوش نہیں دکھائی دیتے۔
PTI Protest
یہ وہ عوامل ہیں جو کسی بھی عوامی احتجاجی تحریک کی کامیابی یا ناکامی میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. لیکن اگر منصوبہ انتشار یا انارکی پھیلا کر نظام لپیٹنے کا ہو تو پھر ان عوامل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف “فرشتوں ” کی مدد کے سہارے انتشار پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے. اور تحریک انصاف اس وقت اسی پالیسی پر گامزن ہے. احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن اس احتجاج سے اگر عام افراد کی روزمرہ کی زندگی کے معمولات متاثر ہوں تو یہ احتجاج نہیں بلکہ بدمعاشی کہلاتی ہے. سٹیٹس کو کے نمایندے کبھی انقلاب نہیں لایا کرتے یہ ایک بہت عام فہم اور سادہ سی بات ہے. جس سٹیٹس کو کو توڑنے کی بات عمران خان کرتے ہیں وہ اور ان کی جماعت خود اس سٹیٹس کو کا حصہ ہیں. خیر اس موضوع پر کئی دفعہ لکھا جا چکا ہے۔
جو بنیادی نقطہ ہے وہ یہ ہے کہ اب کی بار پس پشت قوتیں کیا چاہتی ہیں. کہانی وہیں سے شروع ہو رہی ہے جہاں پر ختم ہوئی تھی کردار بھی وہی اور سکرپٹ اور سکرپٹ رائٹر بھی وہی. وہی بابے اور ریٹائرڈ سرکاری افسران جن کی زندگی سرکاری وسائل لوٹتے گزر گئی ایک بار پھر سے ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام کے خواب دیکھتے نظر آتے ہیں.اگر غور کریں تو سیاسی اعتبار سے احتجاج کی تحریک چلانے کا اعلان انتہائی بھونڈا ہے اور اس کا وقت بھی انتہائی غیر مناسب.مسلم لیگ کے پاس ڈیڑھ سال کی مدت حکومت باقی بچتی ہے ایسے میں احتجاج کی کال اور حکومت کو گھر بھیجنے کی سازشیں سیاسی اعبار سے حکمران جماعت کے حق میں جاتی دکھائی دیتی ہیں.عموما ساڑھے تین برس کی حکمرانی کے بعد پاکستان میں زیادہ جماعتیں بیک فٹ پر چلی جاتی ہیں یا اگلے انتخابات میں نشستیں بچانے کی فکر میں مبتلا رہتی ہیں لیکن عمران خان کے نابالغ سیاسی فیصلوں کے باعث نواز شریف اور ان کی جماعت ابھی سے اگلے انتخابات کی مہم کامیابی سے چلاتی دکھائی دیتی ہے۔
ہر موقع پر عمران خان کا یو ٹرن حکمران جماعت کو سیاسی طور پر مزید مستحکم کرتا چلا جاتا ہے. محض عمران خان کی بدزبانی اور بد اخلاقی کے باعث پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت بڑھتی چلی جاتی ہے. دوسری جانب خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی اور طالبان کے حمایتیوں کے ہاتھ خود یرغمال بن کر عمران خان نے کوئی ایسا گرانقدر کارنامہ نہیں انجام دیا جسے لیکر وہ اگلے انتخابات میں حصہ لے سکیں. یعنی اپنی سیاسی ناکامیوں کی فرسٹریشن بھی نوازشریف اور ان کی جماعت پر ڈالنے کی کوشش کر کے عمران خان خود اپنے آپ کو سچ سے دور رکھتے ہیں. خیر شنید ہے کہ دھرنوں میں جو ڈھیل تحریک انصاف کو دی گئی تھی وہ اب کی بار حکمران جماعت کی جانب سے ملنے کا ہرگز امکان نہیں. شہروں کو بند کروانے یا زبردستی ہڑتالوں کی نہ تو اس دفعہ اجازت دی جائے گی اور نہ ہی سڑکوں پر بیٹھنے کی۔
PTI Jalsa
مختلف شہروں میں پارکوں میں جلسوں کی اجازت البتہ ضرور ہو گی. اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چپ چسپ فیس سیونگ لے کر جلسوں ہر ہی اکتفا کرتی ہے یا پھر ٹکراو کی جانب بڑھتی ہے.یقینا تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کو بھی ابھی اس کا اندازہ نہیں ہو گا کہ اس کا فیصلہ بھی “فرشتوِں” نے کرنا ہے. اس احتجاجی تحریک کے اعلان سے یاد آیا کہ ” فرشتے” پاک چین اکنامک کاریڈور میں اپنا تسلط چاہتے ہیں اور غالبا اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میِں دباؤ ڈال کر شاید وہ یہ کام بھی نواز شریف کو مزید کمزور کر کے نکالنا چاہتے ہیں. ادھر عمران خان کے سپانسر علیم خان بھی حکمران جماعت سے کافی ناخوش ہیں کہ وزیر ریلوے سعد رفیق نے نہ صرف علیم خان سے ریلوے کی زمینوں پر ناجائز قبضہ چھڑوایا بلکہ علیم خان کے تسلط سے ریلوے کی اراضی پر تعمیر شدہ ایک مشہور زمانہ کلب کا قبضہ بھی واپس لیا. اسی طرح ملتان میٹرو کے نیچے شاہ محمود قریشی کی سیاست کا بھی جنازہ نکلتا دکھائی دیتا ہے۔
یعنی عمران خان کو ایک اور سیاسی خود کش حملے پر مجبور کرنے والوں میں ان کے اپنوں کا بھی کافی کردار ہے. انقلابی منجن بیچنے والے طائر القادری سے بھی تحریک انصاف اور! “فرشتوں” کے معاملات تقریبا طے پا چکے ہیں اور امید غالب ہے کہ 2014 کے دھرنوں میں بچھڑے ہوئے دونوں کزنز پھر سے مل جائیں گے. یوں طائر القادری صاحب کے انقلابی منجن اور عمران خان صاحب کے تبدیلی کے چورن کو ملا کر کوئی نیا “حکیمی انقلابی نسخہ” عوام کے سامنے پیش کر دیا جائے گا. اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ عوام کی کثیر تعداد چورن اور منجن کے نسخوں سے تنگ آ چکی ہے.جتنے انقلاب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر گزشتہ دو برسوِں میں عوام نے دیکھے اتنے پچھلے ہزاروں برس میں پوری دنیا نے نہیں دیکھے۔
بد قسمتی سے انقلابات گھر بیٹھ کر نواز شریف کو کوسنے یا سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے اور ٹاک شوز پر محض جزباتی باتوں سے نہیں آتے. تحریک انصاف کا نیا احتجاجی چورن مسلم لیگ نون کی 2018 کی الیکشن مہم کو باضابطہ شروع کروا کر اگلے عام انتخابات بھی پلیٹ میں رکھ کر مسلم لیگ نون کے ہاتھ میں دے دے گا.اور پھر یہ دونوں انقلابی کزنز مزید پانچ سال تک سڑکوں پر احتجاج کرتے پائیں گے. ایسے نابالغ سیاسی حریف قسمت والوں کو ہی عطا ہوتے ہیں.اور حکمران جماعت اس معاملے میں قسمت کی دھنی ہے کہ عمران خان جیسے سیاسی حریف سے سامنا ہے جنہیں سیاست میں دو دہائیاں لگا کر بھی سیاست کی الف ب تک سمجھ نہیں آئی۔