لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) تحریک لبیک پاکستان نے وزرات داخلہ کو ایک درخواست دی ہے، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ تنظیم پر سے پابندی کو اٹھایا جائے۔ وزرات داخلہ نے اس درخواست پر غور کرنے کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
اس درخواست کی تصدیق کرتے ہوئے ٹی ایل پی کے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”ہم نے بدھ کو وزارت داخلہ کو ایک درخواست دی ہے، جس میں ہم نے یہ کہا ہے کہ ہم دہشت گرد تنظیم نہیں ہیں۔ باقاعدہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں اور پرامن جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ جہاں تک احتجاج کا تعلق ہے یہ آئین کے مطابق ہر شہری کا حق ہے لہذا پابندی ہٹائی جائے۔ حکومت نے اس حوالے سے کمیٹی بنا دی ہے اور اس کے اجلاس بھی ہو رہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ جلد ہی پابندی ہٹا لی جائے گی۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے حکومت اپنے موقف سے پیچھے ہٹ رہی ہے، ”ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے کیا کرتی ہے۔ اگر حکومت اپنے موقف سے ہٹی تو پھر ہم فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔‘‘
گرفتار کارکنوں کے حوالے سے ٹی ایل پی کے اس رہنما کا کہنا تھا، ”ہم نے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا بلکہ ہم قانونی طریقے سے ان کی جنگ لڑیں گے۔ حافظ سعد رضوی اور تمام کارکنان کے خلاف مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور ہم عدالتوں سے یہ کہیں گے کہ وہ ان کو ختم کریں۔‘‘
تاہم سول سوسائٹی اس درخواست پر تشویش کا شکار ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ ٹی ایل پی سے پابندی ہٹا لی جائے گی۔ انسانی حقوق کی معروف کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ پابندی مزید سخت ہونی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ کس طرح کی پابندی ہے کہ ٹی ایل پی کراچی میں سر عام الیکشن لڑ رہی ہیں اور حکومت اس کو کالعدم قرار بھی دے رہی ہے۔ میرے خیال میں خالی وزارت داخلہ سے کالعدم قرار دینا کافی نہیں ہے بلکہ حکومت پورے قانونی طریقے استعمال کرے۔ ایسی تمام تنظیموں پر پابندی لگائے، جو مذہب یا فرقہ کے نام پر نفرتیں پھیلاتی ہیں۔ ٹی ایل پی سے کسی صورت میں پابندی ہٹنی نہیں چاہیے بلکہ اس پابندی کو مزید سخت کیا جانا چاہیے تاہم اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ پابندی جو لگائی گئی ہے، وہ قانونی طریقے کو اپناتے ہوئے لگائی گئی ہے۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومتوں کا گزشتہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس طرح کی انتہاپسند تنظیموں کے سامنے سر جھکا دیتی ہیں اور ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ ٹی ایل پی سے پابندی اٹھا لی جائے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان جیسی تنظیموں نے معاشرے کو سماجی انتشار کا شکار کر دیا ہے اور مذہب اور فرقے کے نام پر نفرت کو پھیلایا لیکن اس کے باوجود حکومت ان پر سے پابندی اٹھا لے گئی کیونکہ اس کے خیال میں تو یہ لوگ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں تو ان پر پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے؟‘‘
تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، ”حکومت کی پوزیشن بہت کمزور ہے۔ وفاقی وزیروں نے ان کے پاس جا کر ان سے مذاکرات کیے ہیں۔ تو ایسے میں حکومت کو پابندی اٹھانی ہی پڑے گی۔‘‘
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ پابندی کا یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے لیکن دراصل ان پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کا ڈرامہ رچایا گیا اور ان کو سیاسی طور پر طاقتور بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹی ایل پی کو کہا گیا کہ وہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو بحال کروائے تاکہ وہ عوام کی نظروں میں طاقتور بن کر ابھرے۔‘‘
سینیٹر عثمان کاکڑ کے مطابق اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت پسند اور قوم پرست قوتوں کو کمزور کیا جائے۔