یہ بڑی خوش آئیند بات ہے کہ تلہ گنگ ادبی، تاریخی اور تحقیقی کام میں سنجیدگی سے آگے بڑھ رہا ہے۔کچھ احباب کی کتابیںپرنٹ ہو کر آ چکی ہیں اور کچھ تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جو بہت جلد آسمان ِادب پرشفق بکھیرنے والی ہیں۔ ڈیجیٹل عہد میں کتاب لانا بڑے حوصلے اور اخراجات کی بات ہے لیکن پھر بھی کتاب اپنی ضرورت و اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔عجب مرحلہ فکر ہے کہ تاریخ کے ساتھ جغرافیہ کیوں ہم اہنگ ہوتا ہے؟ جہاں تاریخ بدلتی ہے وہاں کا جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے۔اس لیئے تاریخ سے وابستگی ضروری ہے۔تاریخ آمدہ نسلوں کی امانت اور میراث ہوتی ہے جس سے وئہ رہنمائی اور آگاہی حاصل کرتے ہیں۔زمانہ جتنی شکلیں بدلے،ٹیکنالوجی جتنے روپ دھارے کتاب نے ہر دور میں اہم رہناہے کیو نکہ کتاب کی نسبت ہی کتابِ لاریب سے ہے ۔کتابِ لاریب کا تا قیامت رہنے کا مطلب یہی ہے کہ کتاب نے موجود رہنا ہے۔
ہم Think and Done کے تیز ترین عہد سے گزر رہے ہیں۔آئے روز حضرت انسان ٹیکنالوجی کے حصار میں بے بس ہوتا جا رہا ہے ۔ٹیکنالوجی ہمیں مستفید بھی کر رہی ہے اور ستاروں پہ کمند ڈالنے میں معاون بھی ہے۔لیکن ٹیکنالوجی والے کہیں کہیں من مرضی کرتے بھی نظر آتے ہیں۔گوگل اور دیگرسرچ انجن کا مشاہدہ کرنے والوں کے علم میں ہے کہ آئیندہ کیا ہونے جا رہا ہے۔پوری دنیا سرچ انجن کے ذریعے انفارمیشن حاصل کر رہی ہے۔لیکن سرچ انجن والوںکے اختیار میں ہے کہ انہوں نے کونسی معلومات سامنے لانی ہیں اور کونسی انفارمیشن کو روکنا ہے۔مستقبل قریب میںاس با ت کا قوی امکان موجود ہے کی اُمت مسلمہ کے مذہبی اور تاریخی حوالے نایاب ہوتے جائیں،تاریخ کو مسخ اور متنازہ کرکے پیش کیا جائے۔ اس تناظر میں کتاب ہی وئہ واحد ذریعہ ہوگی جس سے ہم مذہبی اثاثے اور تاریخی ورثے محفوظ رکھ سکیں گے۔کتاب کی اہمیت اور ضرورت بڑھنے جا رہی ہے۔
تحقیقی کام میںتاریخی مستند حوالوں کو اکٹھا کرنے سے لیکر اس مواد کی ترتیب اور پھر اسے تاریخی ڈاکومنٹ بنانے کے لیئے کتابی شکل دینا،اشاعت کا مرحلہ اور پھر اسکی ترسیل بڑے کٹھن مراحل ہوتے ہیں جن سے محقق کو گزرنا پڑتا ہے۔سفری صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ صاحب کتاب کی نجی زندگی اور معاشی معاملات بھی متاثر ہوتے ہیں۔
مجلس احراراسلام پاکستان کے مرکزی سیکرٹری انفارمیشن ڈاکٹر محمدعمر فاروق تلہ گنگ کے معروف کالم نگار ہیں جن کے آرٹیکلز قومی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں اور وئہ عوام کی ذہن سازی اور رہنمائی کا فرض نبھاتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوکتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ان کی پہلی کتاب( مولانا گل شبیر شہیدسوانح و خدمات) اوردوسری کتاب( ا زادی کی انقلابی تحریک)شائع ہو چکی ہیں۔ محقق ڈاکٹر محمد عمر فاروق اس کتاب کے ذریعے اُس تاریخی جدوجہد کو منظر پر لانے کے متمنی نظر آتے ہیں جن کے شواہد معدوم ہوگئے یا کچھ احباب نے تحقیقی کام کیا تو تحریک کے بہت سارے پہلووں کو اجاگر نہیں کیا جا سکا یوں تحقیقی کام میں تشنگی بر قرار رہی۔
مجلس احراراسلام کے قیام1929سے تقسم ہند 1947 تک احرار کا وئہ تمام تاریخی ریکارڈجو اخبارات و رسائل، کتابچوں،سرکلرز اور کاروائی کے رجسٹروں کی شکل میں موجود تھا ہجرت کے ہنگاموں کے باعث ضائع ہوگیا۔جو دستاویزات احرار کے مرکزی دفتر لاہور میں محفوظ تھیں تحریک تحفظ ختم نبوت1953 اور پھر1958کے ایوبی دور میں پولیس کے چھاپوں اور ضبطیوں کی نذر ہوگئیں جو چیزیں سرکاری اہلکاروں کی دسترس سے بچ گئیں وہ بعض مہربانوں کی ملکیت میں آئیں اور ذاتی کتب خانوں کا حصہ بن کر ناقابل استفادہ ہوگئیں۔ان مایوس کن حالات میں جن حضرات نے بھی تحریک تحفظ ختم نبوت میں احرار کی خدمات کو مدون کرنے کی کوشش کی،وئہ بھی بنیادی ماخذ اور مصادر کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی کوششوں میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے۔اس طرح احرار کی تاریخی مساعی و بے نظیر جدوجہد اپنی تابناکی کے با وصف اور عوام کے دل و ذہن میں زندہ ہونے کے باوجود کتابی شکل ترتیب نہ پا سکی اس کے باوجودماسٹر تاجالدین انصاری کی کتاب تحریک ختم نبوت اور مولانا عنایت اللہ چشتی کی تالیف مشاہدات قادیان غنیمت ہیں جن میں تاریخی یاداشتوں کا ایک بہترین خاکہ موجود ہے۔
حالیہ کتاب( تحفظ ختم نبوت1931۔1946 ) جس میں مجلس احرار پاکستان کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ کو اُجاگر کیا گیاہے۔ یہی اس کتاب اور تحقیق کا انفرادی پہلو ہے۔ پہلی جلد402 موضوعات کے ساتھ572 صفحات پر مشتمل ہے۔اس کی اگلی جلدیں 1947کے واقعات سے شروع ہوں گی اور2019تک کے حالات وواقعات کا احاطہ کریں گی جن پر کام جاری ہے۔ ابنِ امیرِ شریعت سید عطا المہیمن بخاری اور نائب امیر مجلس احرار پاکستان نے کتاب میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ڈاکٹر عمر فاروق کے اس تحقیقی اور تاریخی کام کو سراہا ہے۔کتاب خوبصورت پرنٹنگ،دیدہ زیب ٹائیٹل اور جدید بائینڈنگ کے علاوہ ڈاکٹر عمر فاروق کی منفردطرز تحریر اور دلکش الفاظ کے پہناوے نے تاریخی کتاب کو ادب رنگ کر دیا ہے۔پڑھنے والوں کو اس کتاب میںجا بجا اد ب کے دھنک رنگ بکھرے نظر آئیں گے ۔ ڈاکٹر عمر فاروق نے اپنی زندگی کے خوبصورت اور قیمتی10سال اس تحقیقی اور تاریخی کام کے لیئے مختص کیئے اللہ تعالی ان کی کاوشوں کو ثمر بار فرمائے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت کے اس محقق کی نسبت تلہ گنگ کی دھرتی سے ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔تلہ گنگ کے صاحب علم و دانش ڈاکٹر عمر فاروق سے ملاقات کر کے اُن کی تاریخی اور تحقیقی کاوشوں کودادِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔