ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسز کی بھرمار معاشی نمو کیلیے چیلنج قرار

Tax

Tax

کراچی (جیوڈیسک) ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کی بھرمار پاکستان کی معاشی نمو کے لیے بڑا چیلنج ہے، اربوں روپے محصولات دیتے ہوئے معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والا ٹیلی کام سیکٹر اب تک صنعت کا درجہ حاصل نہ کر سکا۔

موبائل فون اور سروسز پر ٹیکسوں کی شرح کم کر کے غیر ملکی سرمایہ کاری، معاشی ترقی کی شرح نمو میں اضافہ اور غربت کی شرح میں نمایاں کمی کی جاسکتی ہے، ٹیکسوں کی شرح کو مناسب سطح پر لاتے ہوئے غیر ضروری ٹیکسوں کے خاتمے سے ٹیلی کام سیکٹر کے ریونیو میں 2020 تک 96ملین ڈالر کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ موبائل آپریٹرز کی عالمی انجمن جی ایس ایم اے کی پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کے حوالے سے حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موبائل فون سروس کو صارفین کے لیے قابل برداشت بنانے سے معیشت کو بھرپور فائدہ پہنچا ہے، سال 2004میں نئے کنکشن (سم) کی فروخت پر ٹیکس 2000روپے تھا جو 2009تک بتدریج کم کر کے250روپے کردیا گیا۔

اس اقدام سے ملک میں موبائل فون کی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا اور خود حکومت کو 2009سے اب تک ریونیو کی مد میں 8ارب ڈالر کی آمدن ہو چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نئے کنکشن پر عائد 250روپے کا ٹیکس ختم کیے جانے سے 2020تک 5 لاکھ نئے کنکشنز کا اضافہ ہوگا، تھری جی صارفین کی تعداد 1کروڑ 70لاکھ تک پہنچ جائیگی جس سے موبائل فون ریونیو میں 25ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا اور معیشت میں 57ملین ڈالر تک کی سرمایہ کاری بڑھ جائے گی، صرف اس ایک قدم سے جی ڈی پی میں 270 ملین ڈالر کا اضافہ ہوگا جبکہ 43ہزار گھرانے غربت کی لکیر سے اوپر چلے جائیں گے، اسی طرح روزگار کے 4ہزار نئے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ مجموعی طور پر ٹیکس وصولیاں 13ملین ڈالر تک بڑھ جائیں گی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر پر دیگر شعبوں کے مقابلے میں بلند شرح کا اطلاق ہے، صوبائی سیلز ٹیکس کی شرح 19.5فیصد اور 18.5فیصد ہے، اس شرح کو کم کر کے دیگر شعبوں کے مساوی 17فیصد تک لانے سے آئندہ 5سال کے دوران 20لاکھ نئے کنکشنز کا اضافہ ہو گا جبکہ تھری جی فورجی کے 6لاکھ 70ہزار صارفین بڑھ جائیں گے، اس قدم سے موبائل کمپنیوں کے ریونیو میں 80ملین ڈالر جبکہ معیشت میں نئی سرمایہ کاری کا اندازہ 230ملین ڈالر لگایا گیا ہے، اس اقدام سے جی ڈی پی میں 1ارب10کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوگا، روزگار کے 23ہزار نئے مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت کو محصولات میں 45ملین ڈالر اضافہ ہو گا۔

رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کو بھی صنعت کا درجہ دیا جائے تاکہ ٹیلی کام امپورٹ پر دیے جانے والے ٹیکس کو ایڈجسٹ کیا جاسکے، ٹیلی کام سیکٹر اس وقت امپورٹ کی سطح پر 5.5فیصد انکم ٹیکس ادا کررہا ہے جو فائنل ٹیکس تصور کیا جاتا ہے، اس اقدام سے ملک میں ٹیلی کام انفرااسٹرکچر اور ایکویپمنٹ میں ہونے والی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور نیٹ ورک کوریج کے ساتھ خدمات کا معیار بھی مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی، ٹیلی کام سیکٹر کو صنعتوں کی طرح امپورٹ کی سطح پر انکم ٹیکس کی چھوٹ سے ٹیلی کام سیکٹر، حکومت اور صارفین کو فائدہ ہوگا۔

رپورٹ کے مطابق ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ دیتے ہوئے امپورٹ پر انکم ٹیکس کی چھوٹ سے بھی 9 لاکھ سے زائد نئے کنکشنز کا اضافہ ہو گا، تھری جی اور فورجی کے 3لاکھ صارفین بڑھیں گے، موبائل ریونیو میں 28 ملین، معشیت میں سرمایہ کاری 102 ملین ڈالر، جی ڈی پی میں 480 ملین ڈالر جبکہ حکومتی محصولات میں 38 ملین ڈالر تک کا اضافہ ہو گا۔