تحریر: شاہ بانو میر ٹرررن ٹررن ٹیلی فون کی گھنٹٰی کی مترنم آواز نے کاموش پرسکون گھر کو جیسے نغمگیں کر دیا ہیلو اوہ بھائی جان آپ؟ (چچا زاد بھائی ) ہاں بہت دل چاہ رہا تھا بات کرنے کو بچوں کی خیریت پوچھنے کو میرے دل و دماغ پر ان کی آواز کے ساتھ جیسے معطر خوشبوؤں کے احساس کے ساتھ گھر کے درو بام چمکنے لگے 3 دادا کی اولاد جن کو اکٹھے دیکھ کر کوئی تمیز نہیں کر سکتا تھا کہ سگا کون ہے اورچچا زاد کون؟ رشتوں کا ہجوم شادیاں مہندیاں منگنیاں سالگرہ 14 اگست میلاد دعائیہ تقریبات خاندان متمول ہو اور رشتوں کا تقدس اہمیت جانتا ہو تو ایسا ہی بھرپور اور لاجواب منظر ہر موقعہ دکھاتا ہے جیسے میر فیملی کا تھا ‘الغرض اس ایک فون نے کیا کیا نہیں یاد دلایا یہ آواز نہیں تھی
یہ تو صحرا میں بادلوں کی آمد تھی اچانک سراب دکھائی دینے والا نخلستان تھا دراز گفتگو کے سلسلے ماضی کی باتیں شادیوں کا ذکر عیدوں پر ہوتا ہلہ گلہ تمام تایا چاچا پھوپھو کے بچوں کا اکٹھے ہونا عید عید کی مسلسل تکرار جھوٹ موٹھ کی ناراضگیاں منانا اور پھر فضا میں کھنکھناتی چوڑیوں کی آواز خوبصورت رنگین ملبوسات کی بہار ایک طرف لڑکیوں کی سرگوشیاں اور جیسے ہی کسی بڑے بزرگ کو آتے دیکھنا یو مکمل سناٹا سر پے ہاتھ پھیرتے ہوئے دعاؤں کے خزانے یہ وقت وہ تھا جب بالوں کی بناوٹ دعاؤں اور ہاتھ سے خراب نہیں ہوتے تھے
Haveli
تائی چچی جان پھوپھو کی اپنی باتیں جن میں قہقہوں کے بعد تلخ لہجہ بھی ابھرتا پھر معدوم ہو جاتا حویلی کا بڑا سا صحن اور نیچے اوپر بسنے والے سب بھائیوں کا ایک جگہہ پے اکٹھا ہوا ان کیلئے عجیب بہار رکھتا تھا جو ان سے دور الگ گھر میں رہتے تھے مل کر دسترخوان پر کھانا چننا اور پھر بھاگ بھاگ کر بغیر کسی تفریق کے کھانا رکھنا بھی اور برتنوں کا انبار اکٹھا کر کے انہی عید کے ملبوسات کو احتیاط سے سنبھالتے ہوئے برتنوں کو دھونا بھی
تمام بہن بھائی جنہیں آجکل کزنز کہا جاتا ہے باہمی عزت و احترام میں ایسے بندھے ہوئے تھے کہ آج ان کے بچوں کو جب ماضی کے قصے سناتے ہیں تو وہ حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دیتے ہیں کہ ایسے سادہ محبتوں سے بھرے وقت افسانوں میں تاریخ میں لکھے تو پڑھے ہوں گے مگر واقعی یہ سب ہوتا تھا؟ بات انکی بھی بجا ہے جس قسم کے حالات اس نسل نے گزشتہ دس دہائیوں سے دیکھے جب کھانے کے لالے پڑے ہوں تو ایسے میں خود غرضی نے نئے معاشرتی اندازدکھا دئے وہ رواداری باہمی ادب و احترام سانجھ سب ماضی بعید کے قصے بن گئے
موت کسی گھر کا رخ کرتی تو پورا خاندان یوں سوگوار ہوتا اور بچوں سمیت جنازے پر جانا لازمی تھا تا کہ بچوں کو جانے والا کا چہرہ اور رونے والوں کے آنسو یاد دلاتے رہیں کہ وہ ایک مضبوط روایت سے وابستہ خاندان کے فرد ہیں شادی ہوئی میکہ چھوٹا شہر چھوٹا ملک چھوٹا نئی دنیا نئے لوگ نئے انداز اولاد ذمہ داری تنہائی کا مسلسل کچوکے لگاتا احساس حسین خوبصورت یادیں ہر تہوار پے اداسی کا سامان بنتیں پھر وقت گزرا بچے بڑے ہوئے رونقیں بڑہ گئیں کسی قدر دل لگ گیا بچوں کی شادیاں ہوئیں رونقیں آنےجانے سے بڑہ گئیں
Allah
ان کے بچے ہوئے تو قدرت پے بے تحاشہ پیار آیا اصل میں ذمہ داریوں سے ہٹ کر یہ حسین گلاب سود کی صورت تھے جن کا ہم نے کچھ کرنا نہیں سوائے محبت دینے کے اور پیار کرنے کے بے پناہ مصروف زندگی دل بہلاتے بہلاتے اللہ کی جانب رجوع ہوا اور زندگی کو جیسے منزل مل گئی کامیاب مصروفیت فون ختم باتیں تمام ہوئیں بیقراری عجیب سی مکی جب گردو پیش پر نظر دوڑائی تو پتہ چلا سب کے سب مجھ جیسے اصل سے غافل ان کے لئےدعاؤں کے سلسلے اللہ کی جانب رجوع کرنے کیلئے حتی المقدور سعی وقت جیسے ختم ہو گیا ہو
کسی کیلئے نہیں بچا بچے شاکی شوہروقت کی کمی کا گَلہ کرتے ہوئے دوستیں میٹھی سی ناراضگی کے ساتھ خاموش سب دیکھ رہی تھی سمجھ رہی تھی لیکن مقصد بہت بڑا اس قرآن پاک سے مل گیا کہ جو تھوڑا بہت پڑا آگے پھیلایا نہیں تو سخت پکڑ ہے روز َ محشر ہر وقت سوچ و بچار کہ اچانک ایک گھنٹی بجتی ہے میکے سے بھائی کی آواز آتی ہے جو آج کی زباں میں کزن ہے یادیں ہیں کہ سمٹنے کا نام نہیں لے رہیں
کیونکہ وہاں بھی سچائی کے ساتھ پکارا گیا تھا اور یہاں بھی سچائی کے ساتھ محسوس کیا گیا تھا آج تیسرا دن ہے بھائی کی آواز سن کر سب کچھ جیسے ختم ہوگیا بچپن سے لے کر اب تک کے گزرے ہوئے ناقابل فراموش واقعات موقعے جیسے ہن کی سکرین پر مستقل قبضہ جمائےب بیٹھے ہیں یہ میکہ ہے ہے ہی ایسا مرتے دم تک بیٹی کی بہن کی نس نس میں سمایا ہوا درد اور محبت کی تمام تر شدت کے ساتھ آنسو لڑیوں کی صورت ہر بار آواز سننے پر گرتے ہیں خواہ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں کسی بھی مقام پر ہوں یہ میکہ ایسا ہی ہے ہر بیٹی کیلئے