تحریر: یم آر ملک 98 ء میں صحافت یوں عام نہ تھی ماضی کے اوراق کی ہم جوں جوں گردانی کرتے جائیں صحافت کے آج سے کل روشن نظر آئے گا اور جب واپسی کے اس سفر میں ہم مولانا ابوالکلام آزاد ،مولانامحمد علی جوہر ،مولانا ظفر علی خان ،آغا شورش کاشمیری ،حمید نظامی کے عہد میں داخل ہوتے ہیں تو آج کے بڑے تمن خاں صحافیوں کی جھوٹی اکڑ فوں ،سر پر رکھی جھوٹے غرور ،خود ساختہ انا کی پگ نیچے گر جاتی ہے مگر ہر عہد کا شورش ،حمید نظامی غازی صلاح الدین شہید ،حافظ شفیق الرحمان کی شکل میں وقت کے ہر فرعون کے سامنے سینہ سپر رہا ،جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والے ہر عہد میں قانونِ فطرت کی طرح موسیٰ بن کر وارد ہوتے رہے
98 ء میں صحافت یوں عام نہ تھی ٹی وی چینل پی ٹی وی کی شکل میں ”حکومت نامہ ”ہوا کرتا تھا جسکی سکرین آج بھی حکومتی تختہ سیاہ ہے جبکہ کارپوریٹیڈ میڈیاء میں ٹی وی چینلز کے اس طرح مارکیٹ میں متعارف ہونے کا تصور تک نہ تھا پرنٹ میڈیا کا طوطی بولتا تھا جنوبی پنجاب کے ایک شہر سے ایک نوجوان صحافی ملک مختار جوتہ نے جرنلزم کی تعلیم کے بعد انصاف سے محروم مقامی پسے ہوئے طبقہ کی آواز کو موثر بنانے کیلئے اپنا ایک اخبار نکالنے کا قصد کیا اجراء کے مراحل مکمل کرنے کے بعد جب ملک مختار جوتہ نے اخبار لانچ کیا تو ملک مختار جوتہ کے مد نظر صرف سچائی کا پرچار تھا ادارت کے فرائض مجھے سونپے گئے اور یوں ہم نے اپنا صحافتی سفر شروع کیا مختا ر جوتہ کے غیر متزلزل ارادوں کا اثر تھا کہ ہم نے ہر بااثر فرد کے ظلم ،بااثر بیورو کریٹ کی کرپشن کو صفحہ قرطاس پر عیاں کیا
یہ وہ صحافتی اوصاف تھے جنہوں نے جنوبی پنجاب کی صحافتی دنیا میں ہمیں عوام کی عدالت میں سرخرو کیا اسی دوران ضلع لیہ کے ایک بااثر سیاستدان جس کی انتقامی کارروائیوں سے اپنے اور غیر نالاں تھے اقتدار اور غنڈہ گردی کی طاقت سے جس نے ضلع بھر کے عوام کا جینا نہ صرف محال کر رکھا تھا بلکہ جنوبی پنجاب میں لوگوں سے وراثتی اراضی محکمہ محال کی ملی بھگت سے ریکارڈ میں ردو بدل کر کے ہتھیانے کا معمول بھی مو صوف کے کارہائے نمایاں میں شامل تھا وہ اپنے دور میں ن لیگی ایم این اے تھا اُس کے خوف کا یہ اثر تھا کہ کوئی بھی متاثرہ اُس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا تھا ایک روز اُس نے دریائے سندھ کے اُس پار اپنے سیاسی مخالفین کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں پار کرادیا مختار جوتہ نے اُس فرعون صفت سیاست دان کے اس کرتوت کو عیاں کرنے کیلئے اخبار کے پہلے صفحہ پر یہ اشتہار چلا دیا کہ یہ پو لیس مقابلہ فلاں سیاست دان کی سیاست گردی ہے پولیس مقابلہ نہیں یہ مختار جوتہ کا دلیرانہ اقدام تھا جس نے عوام کے اندر ہماری صحافتی پذیرائی کو ساتویں آسماں پر پہنچا دیا لوگ اس صحافتی کردار پر عش عش کر اُٹھے یہ اُس سیاست دان کے خلاف ایک اشتہاری مہم تھی جو مختار جوتہ نے چلائی
Truth
سچائی کے اس سفر میں کئی نشیب و فراز آئے مزاحمتوں کے سپیڈ بریکروں نے سچائی کے سیلاب کو روکنے کی نا کام کوشش کی مگر جس دور میں جینا مشکل ہو اُس دور میں جینا لازم ہے کے مصداق حوادث کی منہ زور موجیں دم توڑ گئیں اچانک ضلع میں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں عام ہونے لگیں متاثرہ لوگ مختار جوتہ کی طرف رجوع کرنے لگے جس نے اپنے صحافتی فریضہ کو مد نظر رکھتے ہوئے انتظامیہ کو خواب ِ غفلت سے جگانے کیلئے یہ خبر بریک کی کہ ”اغوا ء برائے تاوان کی وارداتیں عام ،انتظامیہ ناکام ، انگریز سامراج کے بخشے ہوئے کمشنری نظام میں بیٹھے لامحدود اختیارات کے مالک ایک ڈپٹی کمشنر کو یہ سچ ناگوار گزرا اُس نے قانون کو اپنی ذاتی خواہش بنا کر سچ ایک کے علمبر دار کے خلاف بد معاشی شروع کر دی اُس نے مختار جوتہ کو اپنی خود ساختہ عدالت سجا کر ٹارچر کرنا شروع کر دیا سچائی شائع کرنے کی پاداش میں ملک مختار جوتہ کو کئی کئی گھنٹے پیشی کے موقع پر دھوپ میں کھڑے ہو کر انتظار کی صعوبت سے گزرنا پڑتا
یہ انتظامی آفیسر فضول جواب و سوال میں وقت کا ضیاع کرتا آخر کار کئی ماہ کے جھمیلوں کے بعد یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے بغیر کسی جواز کے اخبار کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا گیا معروف انگلش کالم نگار شفقت محمود پنجاب کے وزیر اطلاعات بنا دئے گئے اور ہم نے اُنہیں اُمید کی کرن سمجھتے ہوئے اپنا مقدمہ بمعہ ٹھوس ثبوت اُن کی عدالت میں بذریعہ ڈاک ارسال کردیا شفقت محمود چونکہ سچ کے پرچارک تھے اس لئے اُنہوں نے چند روز بعد مجھے اور مختار جوتہ کو کال کیا ہم لاہور پہنچے اُن سے ملے تو انتہائی شفقت سے پیش آئے اور جب ہم نے اُنہیں اپنی مبنی بر حق رپورٹنگ کے بارے میں آگاہ کیا تو وہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر پر بڑے سیخ پا ہوئے ہماری سچائی کے اعتراف میں اُنہوں نے متعلقہ صوبائی سیکریٹری کو ہمارے سامنے بلایا اور تنبیہ کی کہ مذکورہ ڈی سی او سے کہہ دو کہ ایک گھنٹہ کے اندر اخبار کا ڈیکلریشن بحال کرے مجھے ایک گھنٹے کے اندر رپورٹ کرو ابھی ہم لیہ نہیں پہنچے تھے کہ ڈپٹی کمشنر مختار جوتہ کے گھر کا پتہ پوچھتا پھر رہا تھا ہم نے دوسرے روز اخبار شائع کرایا اور اس خبر کے ساتھ مارکیٹ میں لانچ کیا
کہ فرعون انتظامی آفیسر کو شکست حق کی فتح مختار جوتہ کا سچائی کا سفر جاری رہا آج 17برس بعد جب بول کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ کے خلاف انتقامی گھیرا تنگ محض مارکیٹ کے کچھ چینلز کو راضی کرنے کیلئے کیا جارہا ہے ،بول کے ورکرز صحافیوں کو کئی کئی گھنٹے روزانہ تفتیش کے نام پر ٹارچر کیا رہا ہے ،سچائی کے کارواں کے آگے بلاجواز بند باندھنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ،شہر اقتدار میں مشتاق منہاس ،محمد عثمان غازی ،نذیر لغاری ،ناصر چغتائی ،افضل بٹ ،شہر یار ،بلال ڈار کی قیادت میں صحافی سراپا احتجاج ہیں مجھے اپنے دوست مختار جوتہ کی کہانی یاد آرہی ہے جو انتظامیہ کے ہتھکنڈوں کے خلاف چٹان بنا رہا جس کی سچائی کے سفر کو کو ئی بھی مزاحمت نہ روک سکی