ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب چیز(سبزی یا پھل وغیرہ) نئی نئی مارکیٹ میں آتی ہے تو اس کا ایک معیار ہوتا ہے اور اسی ہی معیار کے مطابق اس کی قیمت مقرر کی جاتی ہے جسے صرف اور صرف انسان ہی خریدتے اور استعمال( کھاتے ) کرتے ہیںاور استعمال کرنے سے قبل اس کے تمام تر لوازمات پورے کئے جاتے ہیں، اسی ہی چیز کی پیداوارجب ضرورت سے زیادہ ہوجاتی ہے تو اس کا ریٹ بھی انتہائی نچلی سطح پر چلا جاتا ہے ہر گلی بازار کی ہر چھوٹی بڑی دکان پر دستاب ہوتی ہے آخر نوبت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ ٹھیلہ ریڑھی والے اسکی پانچ یا دس روپے کلو کی آواز لگاتے پھرتے ہیں اسے خریدتے وقت اگر کوئی تھوڑی بہت بحث کرلے تو یہی چیز چھ یا سات روپے کلو تک بھی مل جاتی ہے، ان میں کوالٹی کی تمیز کرنا ذرا مشکل ہوتی ہے، مگر بیچنے والے سے بس ایک بار پوچھنے کی دیر ہوتی ہے پھر وہ جلد جان نہیں چھوڑتا، آخر نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ اسے کاٹ کر جانوروں کے آگے (بطورِخوراک )پھینکنے کا کام شروع ہو جاتا ، صحافت کے ساتھ بھی اب کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔
کیونکہ صاف ستھرے، نڈر اور پیشہ ور رلوگوں کی جگہ اب روپے پیسے اور انویسٹرزنے لے لی ہے جس کے سبب نہ اعزازی رپورٹرز کی بھرتی کا کوئی معیار رہا ہے اور ناہی اُن کے کردار کا ادارے صرف اور صرف روپے پیسے کو دیکھنے لگے ہیں اس لئے اُن کے ساتھ بھی وہی چل سکتا ہے جو کوئی غیر قانونی دھندا کرتا ہو ورنہ ڈیمانڈ پوری کرنا ناممکن سی بات ہے، کچھ ادارے تویہ نہیں دیکھتے کہ خبر بنانا تو دور کی بات اسے اپنا نام بھی لکھنا آتا ہے یا نہیں؟ یہ نمائندگی لینے کیلئے آنے والا شخص کہیں کو ئی جسم فروشی یا شراب کا اڈا تو نہیں چلاتا کہیں یہ کوئی چور ڈکیت، کسی تھانے کا ٹاوٹ، کسی سیاستدان کا پالتو یا چوروں ڈاکوئوں کی نانی تو نہیں، انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ دیکھتے ہیں تو بس اتنا سا دیکھتے ہیں کہ اس بندے سے ہمیں سالانہ ماہانہ کتنی آمدن ہو سکے گی، چاہے وہ جوئے پرچی کا با دشاہ ہو،یا ہو وہ چورو ں ڈکیتوں کا سرغنہ، اُنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں رہی۔
Media
جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر غیر قانونی دھندا کرنے والے نے اپنے کاروبار کے تحفظ کیلئے گلے میں پریس کارڈ ڈال رکھا ہے، اس طرح سے ( کرتا کوئی اور بھرتا کوئی ہے ) یعنی کہ ہر برائی کا سرپرست میڈیا ٹھہرایا جانے لگا ہے ،یہی بات اداروں کے نام اور مقام کو خاک میں ملا ئے جا رہی ہے، ان حالات میں خبر سچی ہو یا جھوٹی لوگ یقین کرتے وقت سوسو بار سوچنے لگے ہیں، اس کے برعکس دوسرے ممالک میں خبروں کو بہترین ثبوت اور ایک ٹھوس و مصدقہ شہادت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں اَن پڑھ ہی نہیں بلکہ اَن پاڑ صحافیوں کے سبب ہر ادارہ اور ہر فرد یہی سوچنے لگا ہے کہ اس ادارے کی مطلوبہ ڈیمانڈ پوری نہیں ہوئی ہوگی اس لئے یہ خبر چھپ گئی، کیونکہ اب وہ وقت نہیں رہا جب نمائندے کہا کرتے تھے کہ یہ میرا ذاتی فعل ہے خبر دار اگر کسی نے میرے ادارے یا ایڈیٹر پر انگلی اٹھائی تو،اب لوگ اداروں کے نام پر دھندا کرنے لگے ہیں، جو کہ رپورٹر کہلانے کو ایک گالی سننے کے برابر کرتا چلا جا رہا ہے۔
اگر آج سے آٹھ دس سال پیچھے چلے جائیں تو اعزازی رپورٹرز بڑے سوچ سمجھ کر اور باقائدہ ایک انٹر ویو کے بعد رکھے جاتے تھے، بے داغ، باعزت، اچھی شہرت کے حامل، پڑھے لکھے اور پیشہ ور لوگوں کو ترجیح دی جاتی تھی یعنی کہ روپے پیسے کو ترجیح دینے کی بجائے میرٹ کو ترجیح دی جاتی تھی، اُنکی خدمات کوبھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور رپورٹر حضرات بھی بڑے سلجھے ہوئے طریقہ کار کے تحت کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ادارہ کی عزت پر ایک حرف بھی برداشت نہ کیا کرتے تھے، اِن حالات میں ہر مشکل مصیبت آنے پر چند سکوں کے عوض اُنہیں فارغ کر دینے کی بجائے ادارے بھی اُن کا بھر پور ساتھ دیا کرتے تھے اورہر اسٹیشن پر ایک یا زیادہ سے زیادہ دو نمائندے ہوا کرتے تھے اُس وقت رپورٹر کی بھی ایک حیثیت، عزت اور کالی بھیڑوں کے دلوں میں دہشت ہوا کرتی تھی، رپورٹر کے سامنے لوگ کوئی اُلٹی سیدھی بات نہیں کیا کرتے تھے رپورٹر کو معاشرے کا سب سے مہذب یافتہ فرد تسلیم کیا جاتا تھاجس علاقے یا محلے میں رپورٹر کی رہائش ہوتی تھی وہاںلوگ کسی بھی قسم کے غیر قانی قول وفعل کی کبھی حمت نہیں کیا کرتے تھے رپورٹر اگر کسی بھی محکمہ کے آفس جا کر بیٹھ جاتا تو بڑے سے بڑا آفیسر بھی منہ سنبھال کر بات کیا کرتا تھا کیوں کہ اُس وقت ایک خوف ہوا کرتا تھا کہ اگر یہ بات یا یہ کام رپورٹر کی نظر چڑھ گیا تو اگلے روز اخبار میں چھپ جائے گا جس پر رسوائی کے ساتھ ساتھ قانونی کاروائی الگ ہوگی اور اپنے حکام بالا سے کبھی نہ جان چھڑوا پائیں گے اور ہر جرم کرنے سے قبل لوگ یہ ضرور سوچتے تھے کہ اس معاملہ کی کہیں خبر نہ چل جائے کیونکہ خبر کی اشاعت پر پولیس اُلٹا لٹکا دے گی، اور پھر کبھی نہ جان چھوٹے گی، تھانہ کچہریوں کے دھکے الگ اور جیل کی دال الگ پینا پڑے گی، کیونکہ اُس وقت کچھ دیکھ یا سن لینے کے بعد سو روپے کا ایزی لوڈ نہیں مانگا جاتا تھا، بلکہ جو سنا اور جو دیکھا وہ چھپ جایا کرتا تھا اب اگر کوئی ایسا کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا کیونکہ نیوز ڈیسک پر بیٹھے لوگوں کو بھی تو ایزی لوڈ کی ضرور ت ہوتی ہے۔
خیر کچھ اخبارات کی تو اب بھی وہی پالیسی ہے، مگر چند ایک جن میں کچھ پرانے بھی شامل ہیں نے انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کے سبب سبھی کو ایک ہی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور اسی ہی انتہائی اذیت دہ نظر نے کالم لکھنے پر مجبور کیا ورنہ کسی سے کوئی نفرت ہے نہ دشمنی، مگر اِک مقصد ضرور ہے وہ یہ کہ ادارے شاید اس تحریرکی وساطت سے ہی اس دس روپے کلووالے مال کی تلفی کرتے ہوئے آج سے آٹھ دس سال قبل والا اپنا کھویا ہوا نام مقام حاصل کر لیں، اگر تلفی ممکن نہیں تو کم از کم اس مقدس شعبہ سے جُڑنے کیلئے کوئی تعلیمی معیار ضرور مقرر کریں اگر دس روپے کلو والے صحافی بنانے کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا توآخر حیث کاٹ کر مویشیوں کے آگے (بطور خوراک) پھینکنے کی سی رہ جائے گی یعنی کی بطورِ ردی کے استعمال کی سی، خیر تحریر پہلے ہی کافی لمبی ہو چکی اس لئے اب اگلے کالم تک کیلئے اجازت چاہوں گا، اپنا اور اپنے اہل و عیال کا بہت بہت خیال رکھیئے گا اور ساتھ دعائو ں میں مجھے بھی یاد رکھئے گا (فی ایمان ِللہ)۔
Muhammad Amjad khan
تحریر: محمد امجد خان Email:Pardahchaak@gmail.com Mob No For Reedars:03143663818