دس سالہ بدامنی کا خاتمہ

Maulana Sami ul Haq

Maulana Sami ul Haq

خبریں مسلسل یہ آرہی ہیں کہ گذشتہ دس سالوں سے جاری بد امنی کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے۔ مولانا سمیع الحق کا یہ کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے بھیجا جانیولا مراسلہ انہیں مل گیا ہے۔ جسے دیکھنے کے بعد مولانا انتہائی پر امید کھائی دیتے ہیں۔ ان کو ملنے والے مطالبات پر جب سوالات کئے گئے تو انہوں اس ضمن میں ایک سوال کا بھی جواب نہیں دیا اور واضح کیا کہ یہ طالبان کی امانت ہیں ان کو اس طرح افشاں نہیں کیا جا سکتا ہے۔ طالبان کے سوالات ان کے پاس ایک امانت ہیں وہ اُن میں خیانت نہیں کر سکتے ہیں۔ لوگوں نے خوامخواہ طالبان کی جانب سے پندرہ سوالات گھڑ کر اپنی دوکانیں چمکانا شروع کر دی تھیں۔ اور اس پرہ طرہ یہ کہ وہ لوگ برملا مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کر رہے ہیں۔ میڈیا کے بعض اینکرز تو اس معاملے میں زبردستی پارٹی بن رہے ہیں۔

حکومت کی رٹ بلوچستان میں مکمل طور پر کب قائم ہو سکی؟ذولفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچستان پر ہوئی جہازوں سے باقاعدہ گولہ باری کی گئی اور پھر انہی باغیوں سے ہماری حکومت نے مذاکرات بھی کئے۔ آج بھی بلوچستان کے اکثر لوگ پاکستان کے آئین کو نا ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود ان سے مذاکرات پر مسلسل ہر جانب سے زور دیا جا رہا ہے کیوں؟؟؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی ہیں تو پاکستانی ہی مگر اپنے خلاف بعض نا انصافیوں کے خلاف انہوں نے علمِ بغاوت بلند کر لیا ہے۔ ان کی طرف سے کیا سیکورٹی فورسز پر حملے نہیں ہو رہے ہیں اور کیا سیکورٹی فوسز نے ان کے سینکڑوں لوگوں کو اغوا کر کے ان کی مسخ شدہ لاشیں نہیں پھنکیں اور سینکڑوں افراد کو لاپتہ نہیں کر دیا گیا؟؟

مگر اس کے باوجود ہمیں پاکستان اور اس کا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے۔اسی طرح کیا کراچی میں دہشت گردوں کی جانب سے سیکورٹی فورسز اور رینجرز پر مسلسل حملے نہیں ہو رہے ہیں؟ اور ان میں بھی بعض افراد پاکستان پر دشنام طرازیاں کر کے کیا پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں؟ پرویز مشرف پر ہی کیا تمام فوجی آمروں نے پاکستان کے آئین کو پسِ پشت ڈالکر اپنی اپنی کارستانیوں کو جاری رکھااور وہ پھر بھی پاکستان کے موسٹ اوبیڈینٹ سروینٹ ٹہرے!!! یہ آئین کے نا ماننے والے تو محبِ وطن ٹہرے اور تمہیں کشمیر میں فتح مندی سے ہمکنار کرنے والے وہ لوگ جنہیں بابائے قوم نے پاکستان کا بازوِ شمشیر زن کے خطاب سے نوازا تھا ان کی اولادوں میں سے چند امریکہ مخالف قبائلی امریکہ کی جنگ جو ہم ڈالروں کے عوض لڑنے کو تیار ہیں اُس جنگ میں سامنے آکھڑے ہوے ہیں تو وہ کیونکر غدارِ وطن ہیں ؟؟ وہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان کو امریکی جنگ سے باہر نکل کر اپنے لوگوں کی حفاظت کرنی چاہئے نا کے ان پر ہوائی جہازوں سے بمباری کر کے ان کے بے گناہوں کو صفحہِ ہستی سے مٹادیں!!!

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیکولر قوتوں کو مذاکراتی کامیابی کے نتیجے میں اپنی ناکامی صاف نظر آرہی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ پاکستان کی فورسز کو بھٹکے ہوے پاکستانیوں کے خلاف لا کھڑا کرنا چاہتی ہیں تاکہ ایک مرتبہ پھر آگ اور خون کا میدان سجا دیا جائے۔ تا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل میں آسا نی حاصل کر سکیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ طبقہ مدر پدر آزادی کا اپنا ناجائز حق لے کر ہی رہے گا چاہے اس کے لئے ملک میں خون کی ندیاں ہی کیوں نہ بہہ جائیں۔دوسری جانب پس پردہ ان استعماری قوتوں کا اتحاد بھی دیدنی ہے۔ نہ جانے کیوں ان قوتوں کو اسلام سے اس قدر نفرت ہے اور ساتھ ہی خوف بھی ہے۔

اسلام کسی کی جائز آزادی سلب کرنے کاہر گز حکم نہیں دیتا ہے۔ بلکہ معاشرے میں ہر ایک کی حدود کا تعین اسلام نے کردیا ہے اور اسی پیرا میٹر میں رہتے ہوے زندگی گذارنے کا مسلمان مردوں اور خواتین کو حکم دیتا ہے۔مظلوم کو اس کا حق دیتا ہے۔ ہاں مغرب کی طرح کسی کو ننگ دھڑنگ روڈ پر چلنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔عورت کو اپنی زینت کی حفاظت کا حکم دیتا ہے اور مرد وخوتین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ عورت کو کسی کاروبار اور روزگار سے منع نہیں کرتا ہے۔ مگر بے جا اختلاط کی مخالفت کرتا ہے۔ بچیوں کی تعلیم وتربیت پر تو خاصہ زور دیا جاتا ہے، اور نہ ہی عورت کو حصول علم کی کہیں ممانعت ہے۔ ہر جانب سے عجیب عجیب طرح کی منطق آرہی ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ملک فتنہ و فساد سے باہر نہ آنے پائے۔

Taliban

Taliban

مذاکرات کے مخالفین کو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ تحریکِ طالبان نے آئین پاکستان میں رہتے ہوے امن مذاکرات کی حامی کیوں بھر لی ہے۔ ان قوتوں کے بقول طالبان تو آئین کو مانتے ہی نہیں ہیں تو پھر ان سے مذاکرات کیسے؟؟؟ دوسری جانب طالبان پاکستان کے آئین کے دائرے میں رہ کر ہی حکومت سے مذاکرات کرنے پر بالکل تیار ہیں اس پر کسی کو حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ طالبان بھی پاکستانی ہیں۔ دراصل طالبان کو بد نام کرنے کے اس فعل قبیح میں نام نہاد مولیوں کے بعض گروپس بھی شامل ہیں۔جن کا کسی بھی حوالے سے سوئے تعصبات پھیلانے کے کہیں کوئی کردار دیکھتی آنکھوں کو تو نظر آتا نہیں ہے۔ جو نہیں چاہتے ہیں کہ ملک میں امن امان کا دور دورہ ہو۔

ماضی میں شہادتیں تو شعہ علماء اور دیوبندی علماء دونوں کی ہی ہوتی رہیں۔لیکن سب نہیں بعض انتہا پسند علماء ان مذاکرات کی شدت کے ساتھ مخالفت پر کمر بستہ دکھائے دیتے ہیں حالانکہ صحیح یا غلط پولیس کی طر ف سے اس بات کی بھی شہادت دی جاتی رہی کہ ہمارا پڑوسی ملک ایران پاکستان میں علماء کی ٹارگیٹ کلنگ میں اہم کردادار اد اکرتا رہاہے۔ بلکہ ٹارگیٹ کلر کی بار بار تربیت کے بھی اشارے قانون نافذ کرنے والے ادارے دے چکے ہیں۔ لیکن سمجھ دار شیعہ اور سنی علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ٹارگیٹ کلر جہنمی ہیں اور ان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے علماء اور عام شہری شہادتوں کے رتبے پر انشاء اللہ فائز ہوں گے۔

طالبان کی جانب سے اس بات کی کھل کر نفی کی جا چکی ہے کہ انہوں نے پندرہ نقاط کی کوئی شرط رکھی ہے اور نہ ہی ملا فضل اللہ کو خلیفہ بنانے کی بات کی گئی ہے ۔مغربی میڈیا صحافتی اصولوں کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اس قسم کے شوشے چھوڑنے میں مذاکرات مخالف قوتوں کو شائد کوئی فائدہ سُجھائی دے رہا ہے۔ البتہ طالبان کی شوراکی جانب سے یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ حکومت یہ بات واضح کرے کہ فوج اور حساس اداروں کا مذاکرات میں کیاموقف ہے؟اور عسکری قیادت اس عمل کو کس حد تک سپورٹ کر رہی ہے۔ طالبان شورا کا یہ بھی موقف سامنے آیا ہے کہ مذاکراتی کمیٹی وزیر اعظم آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کر کے ٹھوس گارنٹی کے بعد طالبان کی سیاسی شورا کو مطلع کرے۔ رابطہ کار کمیٹی کے سیز فائر کے اصرار پر طالباں کی سیاسی شورا نے واضح کیا ہے کہ گذشتہ دو ہفتے سے تحریکِ طالبان کوئی پر تشدد کاروائی نہیں کررہی ہے۔

جبکہ پاکستان کے بعض اداروں کی جانب سے مسلسل کروائیاں چل رہی ہیں۔ مگر 14، جنوری کو کراچی میں کی جانے والی کاروائی اپنے گرفتار ساتھیوں کی ماورائے عدالت کلنگ کا نتیجہ ہے۔پولس اور ایجنسیاں ہمارے لوگوں کو گرفتار کر کے ماورائے عدالت کلنگ کر کے ان کی لاشیں پھینک رہے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے اُن گروپوں کی بھی نشان دہی کی ہے جو مذاکراتی عمل کو ممکنہ طور پر سبو تاج کرنے کی کوشش کریں گے تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کے بقول تحریکِ طالبان نے دہشت گردی کے مرتکب افراد سے باز پرس کرنے کا یقین بھی دلا دیا ہے۔ ہم سجھتے ہیں کہ فوری طور پر دونوں جانب سے کاروائیاں ختم ہوجانی چاہئیں ورنہ یہ مذاکرات صرف مذاق رات کی شکل میں ڈھل کر ملک و قوم کے نقصانات کا ایسا دروازہ کھولدیں گے جسکو بند کرتے کرتے ہم اپنے مزید اعضا گنوا بیٹھیں گے۔ خدا کے لئے ہم سب کو سنجیدگی کا راستہ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ہم سب کے لئے سب سے زیادہ پاکستان اور پاکستانیوں کے مفادات عزیز ہونے چاہئیں۔ ایک چھوٹی سی چنگاری پورے گھر کو لپیٹے میں لے لے گی اور پھر ہم اپنی حماقتوں پر ماضی کی حماقتوں کی طرح کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔طالباں شورا کو بھی چاہئے کہ وہ بے گناہوں کا لہو اپنے ہاتھوں پر نہ لتھیڑیںکہ یہ عمل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی قرآن و حدیث کی روح سے اور میری دانست میں ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے۔ جہاں طالبان نے پاکستان کے آئین کے تحت مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کی ہے وہیں انہیں چاہئے ہے کہ بے شک اپنے قاتلوں کو نہ بخشو مگر بے گناہوں کو قتل کرنا بند کردوکہ جتنے افراد کا قتل ہوگا گویا اُتنی ہی مرتبہ خانہ کعبہ کو ڈھا دیا گیا۔ جو لوگ آپ سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ آپ کے دُکھ کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کی تو ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہے کہ مسلمان آپس میں دست گریباں رہیں اور انہیں اپنے سامراجی عزائم پورے کرنے میں مدد ملتی رہے۔ اور یہی خواہش ان کے ایجنٹوں کی اُن سے زیادہ ہے۔ وہ لوگ جو آج مذاکراتی عمل کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اور اُن کے سرپرست مذاکرات کی نا کامی پر بغلیں بجائیں گے۔

ایک ٹولہ تو یہ جی جان سے چاہتا ہے کہ پاکستان کے حالات بگاڑ کر ایک مرتبہ پھر ڈانڈا برداروں کو کھُل کھیلنے کا موقع مل جائے۔ ٹھنڈے کمروں ہیلی کاپٹروں اور ہوئی جہازوں میں پھرنے ولے یہ سجھتے ہیں کہ ان پہاڑوں میں رہنے ولے بوریا نشینوں کو وہ چیونٹی کی طرح آن واحد میں مسل کر رکھدیں گے۔یہ لوگ پاکستان کے محب نہیں ہیں بلکہ دشمن نمبر ون کا کردار ادا کرنے پر کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں ۔مگر بوریا نشینو تم ہی ادراک سے کام لے کر میرے وطن اور اپنے پہاڑوں کو جنگ کی اندھی آندھی سے بچانے کی بہتر تدبیریں کر لو کہ آنیولی نسلیں تمہاری شکر گذار ہوں گی۔

Prof Dr Shabbir Ahmad Khurshid

Prof Dr Shabbir Ahmad Khurshid

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com