خیمہ بستی کی قانونی حیثیت کو دیکھنا ہو گا، تقریروں میں گالیاں دینا کونسا حق ہے؟ سپریم کورٹ

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد(جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے غیر آئینی اقدامات کیس میں عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے اٹھائے گئے 3 قانونی سوالات پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے 3 دن میں جواب طلب کر لیا۔

اے این پی اور بی این پی نے سوالات اٹھائے تھے کہ کیا وزیر اعظم سے بزور طاقت غیر آئینی طریقے سے استعفیٰ لیا جاسکتا ہے؟ کیاکوئی جماعت اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی مقاصد کے حصول کے لیے فوج کو ملوث کرسکتی ہے کہ فوج مستقبل کا تعین کرے گی۔

اور کیا کوئی سیاسی جماعت تقریر، تحریر اشاروں اورکنایوں میں یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے؟ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی عدالت نے آبزرویشن دی کہ فیصلے کرنے کے لیے پیمانہ آئین وقانون ہے، عدالت مصلحت یا سمجھوتوں کو نہیں دیکھتی۔

جسٹس جواد خواجہ نے کہا آئین کی شق 14 ،16 اور 17 کی تشریح کریں گے اور طے کریں گے کہ حق اور اس کی حد کیا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر 21 دن سے میڈیا پرایک ایشو ہو تواس کا مطلب ہے کوئی مسئلہ موجود ہے، اس کے حل کا طریقہ کارکیا ہو گا، فیصلہ عدالت کا ہوگااور اطلاق حکومت کرے گی، بنیادی حقوق کا اطلاق سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ اگر بنیادی حقوق کی پامالی کا معاملہ ہو تو ضروری نہیں کوئی درخواست دائرکرے گا تو دیکھا جائے گا، عدالت خود بھی نوٹس لے سکتی ہے، شاہراہ دستور پر ہماری ناک کے نیچے جوخیمہ بستی بن گئی ہے اس کی قانونی حیثیت کو دیکھنا ہو گا،اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ٹھیک، نہیں تو پھر ہم فیصلہ کریں گے اور حکومت اس کا اطلاق کرے گی۔ رضا ربانی نے کہاکہ ملک کی سیاسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو ماورائے آئین اقدام کا خدشہ ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل یوسف کھوسہ نے کہا کہ ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک جماعت ایسی ہے جوکہہ رہی ہے کہ اس مقدمے کو نہ سنا جائے اور درخواستیں خارج کردی جائیں، درخواستیں خارج ہو جائیں گی تو ماورائے آئین اقدام کے خلاف حکم امتناع بھی غیر موثرہو جائے گا۔ جسٹس ثاقب نے کہا کہ ہم احتجاج کے حق کے خلاف نہیں لیکن مٹی پائوکی یہ سیاست اب ختم ہونی چاہیے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ تقریروں میں گالیاں دینا کونسا حق ہے۔