گو نواز گو کے ادبی و فنی محاسن

Go Nawaz Go

Go Nawaz Go

تحریر:وسیم رضا

گو نواز گو کے جواب میں رو عمران کارو نعرہ منظر عام پر آیا جبکہ رانا ثنا اللہ نے تجویز کیا ہے کہ گو نواز گو کے جواب میں پاگل عمران کا نعرہ لگایا جائے۔ تین لفظوں پر مشتمل گو نواز گو GO NAWAZ GO کا زبان و ادب کے اعتبار سے جا ئزہ لیا جائے تو گو نواز گو مندرجہ بالا دونوں نعروں سے زیادہ مترنم،م مہذب اور بامعنی ہے، پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال میں اب یہ نعرہ سیاسی جلسوں سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں گھروں کی دہلیزوں تک جا پہنچا ہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں دو فنکار درخت کی چھاؤں میں بیٹھے نظر آ رہے ہیں ،روزی روٹی کی امید میں وہ منتظر ہیں کہ ان سے کچھ سننے کی فرمائش کی جائے۔

ایک نے ڈھولک کو جکڑ رکھا ہے جبکہ دوسرے نے ہارمونیم کی طنابیں پکڑ رکھی ہیں، انتظار طویل ہو رہا ہے انھیں سینکڑوں گانے یاد ہیں لیکن کوئی فرمائش نہیں آرہی ، اچانک پس منظر سے آواز آتی ہے گو نواز گو گا کر سناؤ،فنکاروں کے لئے یہ فرمائش بلکل غیر متوقع ہے، وہ حیران ہو کر پہلے اسے دیکھتے ہیں جس نے فرمائش کی تھی پھر ادھر ادھر دیکھ کر پریشانی سے ہنستے ہوئے ہاتھ جوڑنے کے انداز میں فریاد کرتے ہیں ”باؤ جس سانوں پلس پھڑ لے گی ”(‘ باؤ جی ہمیں پولیس پکڑ لے گی) اؤے کچھ نہیں ہوتا گاؤ۔ فرمائش کرنے والے کی آواز میں اصرار بھی ہے اور تسلی بھی ۔ ”بھوک بھی بڑی عجیب شے ہے ،بے خوف کر دیتی ہی ،ممولے کو شہباز سے لڑا دیتی ہے۔

،حکمرانوں کے تخت الٹوا کر انقلاب برپا کروا دیتی ہے” ڈھولک پر دھپ دھپ کی تھاپ پڑتی ہے اور گو کی ایک لمبی تان فضا کی ہر شے کو مرتعش کرتی چلی جاتی ہے ،ہر چیز جھومنے لگتی ہے ، گو کے ساتھ نواز گو جڑتا ہے تو گردونواح میں ہر کوئی مچل مچل کر محو رقص ہو جاتا ہے ، دونوں فنکار بغیر کسی تیاری کے تین لفطوں کے مصرے کو مختلف اندازوں میں گاتے چلے جاتے ہیں اور کہیں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ سب کے چہروں پر رونق ہے۔

چھوٹی اور مترنم بحروں اور اونچے راگوں میں گانے کے لئے یہ محاورہ PHRASE نما مصرعہ بڑا موزوں وموثرہے ،” ابھی وہ گو نواز گو کی مزید نئی دھنیں اور نئے نئے رنگ بکھیر ہی رہے ہوتے ہیں کہ ویڈیو اختتام پزیر ہو جاتی ہے ۔ سوشل میڈیا اس قسم کی دیسی و بدیسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے ۔ گو نواز گو میںدوانگریزی اور ایک اردو زبان کا لفظ ہے، گو GO اردوزبان میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ یہ اب اردو زبان ہی کا حصہ لگتا ہے ،اردو زبان میں یہ اب بالکل اجنبی نہیں لگتا۔ یہ ایک سادہ اور آسانی سے ادا کیا جانے والا لفظ ہے، ترنم کے اعتبار سے نہایت خوش کن ہے۔

ادائیگی میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی، گو کی آواز لگائیں تو ہونٹوں کی گولائیاں دائرے کی شکل میں ڈھل جاتی ہیں اور سار ا زور گلے پر پڑتا ہے یہ اس لفظ کی قدرتی خوبی ہے کہ جتنی بار بھی بولیں گلے پر خراشیں نہیں پڑتیں، گوکو ادا کرنے کیلئے گلا پھاڑنے کی ضر ورت نہیں، منہ کے اندر زبان اور تالو کے امتزاج COMBINATION سے آہستہ بولیں یا تیز گلا نہیں بیٹھتا۔ گو کے قدرتی اور فنی محاسن کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پی ٹی آئی کے فارن چیپٹرز کارکنوں نے غیر ملکیوں کو اس کمپین کا حصہ بنانے کیلئے امریکہ یورپ اور عربوں میں غیر ملکیوں کی آواز میں گو نواز گو ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شئیر کی ہیں ان میں کسی بھی غیر ملکی کو یہ نعرہ لگاتے ہوئے کوئی دقت پیش آتی نظر نہیں آتی۔

Pakistan

Pakistan

لفظ نواز کے آگے بھی گو اور پیچھے بھی گو یعنی ہر دو صورتوں میں گو کے درمیان نواز اتنا فٹ بیٹھتا ہے کہ اب کھڑا رہنے کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی۔ گو نواز گو کہتے ہوئے آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ خود بخود آجاتی ہے۔ یہی اس نعرے کے زبان زد عام ہونے کی وجہ ہے، جملہ معتر ضہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں” لے کے رہیں گے پاکستان” کے بعد یہ نعرہ سب سے زیادہ مقبول ہوا ہے۔ گو نواز گو کے لفظوں میں کوئی ناشا ئستگی نہیں ، بے ہودگی یا لچر پن نہیں ، لفظی یا معنوی اعتبار سے قابل اعتراض نہیں ، پاکستان کے آئین کی رویا جمہوریت کی کسی بھی شق سے متصادم نہیں ،یہ ایک پارٹی کا سیاسی مطالبہ ہے جس سے سب کا متفق ہونا ضروری نہیں تاہم ایک مطالبے کے طور پر اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

کیونکہ اگر ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے کہ جس کو بچانے کے لئے ہمارے پارلیمینٹیرنز کی جان نکلی جارہی ہے تو تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ نون یا کوئی اور سیاسی جماعت اسے پولیٹیکل سلوگنز متعارف کروانے اور اس کے اظہار کی آزادی اور اجازت ہونی چاہیئے رو عمران رو میں بھی گو نواز گو کی طرح تین ہی لفظ ہیں ، لیکن لفظوں کے اوزان میں حد سے زیادہ فرق ہونے کے باعث وہ چاشنی اور جازبیت نہیں جو گو عمران گو میں ہے، پاکستانی عوام ایک بڑی تعداد کے لئے سیاست ایک شغل کی مانند ہے ، اس شغل میں لطف انداوز ہونے کا عنصر بہت ضروری ہے ، لفظ رونا سیاست سے میل نہیں کھاتا،سیا ست میں صرف چڑھتے سورج کو سلام ہے۔

رو کی دو بار تکرار نے اس نعرے کے اثر کو زائل کر دیا ہے، رو عمران رو کا نعرہ مسلسل نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ اس میں اور یجنیلٹی اور معنویت کی کمی ہے ، یوں بھی رو عمران رو سے جزبات برا نگیختہ نہیں ہوتے ، رانا ثنا اللہ کے نعرے پاگل عمران پاگل میں تو بالکل ہی کو ئی کشش ATTRECTION نہیں ، ان لفظوں کو نعرے کیلئے استعمال کر کے مقبول عام بنانا تقریبا ناممکن ہے ، اس پر کوئی دلکش اور چنچل سا گا نا بھی نہیں بن سکتا ۔ کیونکہ الفاظ ٹھوس اور نا ہموار ہیں ، علم ا لاعداد کے اعتبار سے حروف تہجی کا بھی ایک دوسرے سے کو ئی میل نہیں۔

رانا ثنا ا للہ گو نواز گو کے مقابلے کا نعرہ تیار کروانے کا یہ کام جلد بازی میں خود کرنے کی بجائے اپنی جماعت کے کسی عام سیاسی کارکن سے زیادہ بہتر طریقے سے لے سکتے تھے۔ لیکن کیا کریں جنہیں سارے کام ،عہدے ،واختیار اپنے ہاتھ میں رکھنے کی عادت ہو وہ سخت مشکل میں بھی کسی دوسرے اپنے سے بہتر انسان کی شراکت برداشت نہیں کرتے ۔ حکومتی ارکان پبلک میں انتہائی چوکنے نظر آتے ہیں وہ گو نواز گو کے نعرے سے واضح طور پر خوفزدہ ہیں، بعض ارکان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ انھوں نے متحارب پارٹی سے فرینڈلی معاہدہ کیا کہ ان کی موجودگی میں نہیں بلکہ ان کے جانے کے بعد گو نواز گو کے نعرے لگائے جائیں گے۔

حقیقت یہ کہ باوجود کوشش کے حریف جماعت کے ایک مقبول نعرے کا توڑ ابھی تک حکمران نہیں کر سکے۔ عمران خان کے تحریک کا انجام کیا ہوگا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن گو نواز گو کا نعرہ جگہ جگہ لگنے سے حکومتی اراکین کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے لئے قانون نافز کرنے والے اداروں کی طاقت اور اپنے اختیار ات کا آپشن استعمال کرنے کی غلطی کرنے کی بجائے حکومت کو چاہیئے کہ اپنے میڈیا ایڈوائزروں ،مشیروں اور سیاسی کارکنوں سے متبادل نعرے کی تیاری کیلئے فوری رابطہ کرے ، اس سے پہلے کہ گو نواز گو کا نعرہ کوئی اور گل کھلا دے۔

Wasim Raza

Wasim Raza

تحریر:وسیم رضا