دہشت کی علامت میڈیا ہمارا

Media

Media

تحریر : حاجی زاہد حسین
ہماری ان پڑھ مگر با شعور مائوں کو سلام جنہو نے اپنے معصوم بچوں کو کلمہ طیبہ کی لوریاں دیکر پروان چڑھایا۔ اگر کبھی ڈرایا بھی تو ان دیکھے جن بلائوں سے اور کتے بلیوں سے ڈرایا۔ یہ جگر گوشے ڈر گئے تو انہیں اپنے سینوں سے لگایا ۔ آنچل میں چھپایا ۔ اور پھر وہی نسل پروان چڑھی تو انہیں نے اپنا پاکستان بنایا چلایا۔ آدھا کشمیر آزاد کروایا۔ مگر بدقسمتی سے آج کی ماڈرن بے شعور مائوں نے اپنے نو نہالوں کو کلیتا ٹی وی نیٹ کیفے کے سپرد کر کے اپنی جان چھڑا لی جنگ و جدل اور مار دھاڑ کی فلموں ڈراموں اور بد شکل کارٹونوں نے ہمارے معصوموں کی معصومیت چھین لی سادگی چھین لی اور پھر ہمار ا سارا معاشرہ لڑائی جھگڑے مار کٹائی بد کرداری کا منظر پیش کرنے لگا۔ قارئین ہمارا الیکٹرانک میڈیا۔ دن رات صرف اسی پر اپنی توانائیاں صرف کر رہا ہے۔ کہ کہاں بچے اٹھائے گئے بچیاں درندگی کا نشانہ بنیں۔ اغوا ہوئیں۔ مسجدوں امام بارگاہوں میں انسانی چیتھڑے اڑے ۔ کیسے بھائی نے بھائی کا گلہ کاٹا۔ اولادوں نے اپنے بوڑھے والدین کو گھر وں سے نکالا ۔صرف و صرف مصالحہ دار خبریں رہی سہی کسر ہمارے پرنٹ میڈیا نے نکالنی شروع کر دی ۔ معصوم تو معصوم جوان بوڑھے عورتیں دہشت زدہ ہیں۔

ٹی وی موبائل کھولنے سے پہلے دس بار جل تو جلال تو پڑھنا پڑھتا ہے۔ شیطان سے پناہ مگر کیا مجال یہ دہشت ذدہ خبریں تصویریں خون آلود لاشے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے ۔ اے آر وئی سمیت دوسرے ٹی وی چینلوں پر موسٹ وانٹنڈ جیسے جرائم سے بھر پور پروگرام آگ پر پٹرول چھڑکنے کی مانند ہیں۔ ایسے پروگرام ایک طرف جہاںوارداتوں کی منظر کشی کرتے ہین وہاں بے روزگار نوجوانوں کو جرائم کی ترغیب ، تحریس اور تربیت دیتے ہیں۔ قارئین یہی وجوہات ہیں کہ ہمارے گھرانے شہر محلے ۔ گلیاں روز بروز ایسے عناصر سے اٹی جا رہی ہیں۔ علاوہ اس کے ہمارا آجکل کا نوجوان ہماری نوجوان نسل بزدلی کا شکار ہو تی جا رہی ہے کل کی جو نسل اپنے ملک و ملت کے دشمنوں کو للکارتی تھی آج وہ اپنوں کو تو خوفزدہ کرتی ہے مگر اپنے روائتی دشمنوں ہنود و یہود کی للکار کا جواب تک نہیں دیتی۔ قارئین جرائم حادثات اور واقعات کہاں نہیں ہوتے ۔ کس ملک میں نہیں ہوتے ۔ امریکی اور برطانوی ریاستوں اور شہروں کو رات بارہ بجے بند اور شائراہوں کو سیل کر دیا جاتا ہے۔ وہاں کے عوام کو خبردار کر دیا جاتا ہے خبر دار ہو شیار۔ بارہ بجے رات کے بعد کوئی شہری باہر نہ آئے۔

سعودی مملکت میں ایک طویل عرصہ کے قیام میں ہم نے دیکھا رات بارہ بجے کے بعد تمام شاہراہوں پر ناکے لگا دیے جاتے ہیں۔ کہ مجرمین کوئی شہروں میں داخل نہ ہو سکیں۔ وہاں ایسے حادثات کی قطعا ٹی وی چینلوں پر تشہیر کی اجازت نہیں۔ تاکہ ملک کا کوئی شہری بچے عورتیں دہشت زدہ نہ ہوں۔ خوفزدہ نہ ہوں۔ چھوٹی نسل خوف کے سائے میں دہشت کے سائے میں پروان چڑھے بزدل نہ بنے۔ ہاں جرائم پیشہ افراد کیفر کردار تک پہنچا کر اہل وطن کو خوشخبری دی جاتی ہے۔ کہ آج فلاں شہر میں فلاں جرم اپنے انجام کو پہنچا۔ فلاں شہر اور قریہ ۔ جرائم سے پاک کر دیا گیا ہے۔ مگر ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر گھڑی ہر پل جرائم کی دنیا آباد ہے۔ معصوم بچے بچیاں درندگی کاشکار ہو رہے ہیں۔ جوان بچیاں اجتماعی زیادتی کا شکار کچرے کے ڈھیر خون آلود لاشے اور ہمارے ٹی وی چینل بڑے فخر سے اہل پاکستان کو لائیو منظر کشی دیکھا رہے ہیں۔

جناب یہ خبر اور تصاویر سب سے پہلے ہم نے حاصل کی ہیں۔ ہم بڑے با خبر ہیں۔ ان بدبختوں کو یہ خبر نہیں کہ گھروں میں ان کے بھی معصوم بچے ۔ کمزور دل کواتین بوڑھے باپ یہ منظر کشیاں دیکھ کر بزدلی کا شکار ہو رہے ہیں۔ دہشت زدگی میں جی رہے ہیں۔ ہمارے قانونی اور انتظامی ادارے خصوصا ہماری اعلیٰ عدالتیں اس طرف خصوصی توجہ دیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر قدغن لگانے والا پیمرا اپنا کردار نبھائے خدا کے لئے ٹی وی چینلوں پر جرائم کی ایسی منظر کشی تصاویر فرضی جرائم پر مبنی داستانیں ڈراموں پر پابندی لگائیں۔ خبر گوہی کریں خبریں ضرور چلائیں اور خصوصا انجام کا رکو پہنچنے والے مجرمین کو سامنے لائیں۔

قوم کو بتائیں کہ برے کاموں کا برا نتیجہ ۔ اپنے معصوموں کو خوفزدہ دہشت زدہ نہ کریں۔ بزدل نہ بنائیں۔ اپنی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے نوجوان نسل کو قرون اولی اور قرون وسطی جیسے شہسوار بنائیں۔ وطن کی مائیں اپنا سا کردار ادا کریں۔ ہمارے بچے ہمارے معصوم آج بھی ان مائوں کی تلاش میں ہیں جو انہیں لوری میں صرف کلمہ طیبہ سنائیں۔ اور سرزنش میں جن بھوت سے ڈرائیں پھر انہیں سینے سے لگائیں۔ آنچل میں چھپائیں۔ ملک و ملت کی خاطر ٹینکوں کے نیچے لیٹنے نہروں دریائوں میں بے خوف وخطر کودنے والے شیر پتر بنائیں۔ قوم کی مائوں بہنوںبیٹیوں کی عزتوں عصمتوں کی حفاظت کے لئے محمود غزنوی اور محمد بن قاسم جیسے رکھوالے بن پائیں۔ (انشاء اللہ باذن اللہ )

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین
ممبر آل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com