ہارون آباد: دہشت گردی کے خلاف مہم بھی تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ انہیں پیدا کرکے ان کے اصل مہرے اور ُموجدِ اعظم، 9/11 کے بعد پاکستانی اڈوں سے افغانستان پر 38 ہزار فضائی اور ڈرون حملوں کی اجازت دینے والے مشرف کا بھی مستقل علاج کرڈالا جائے۔ اسکے ساتھ ہی کٹھ ملائیت کے َعلمبردار فرقہ پرست اور علاقائیت و لسانیت کے موجد زہریلے اژدھوں کا سر کچلا جائے ۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں بھی ہماری افواج تو جذبات سے پر تھیں اور مخلصانہ جدوجہد سے ملکی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھیں مگر مشرقی کمانڈکاجنرل نیازی کہہ رہا تھا کہ بنگالیوں کی جنس تبدیل کرڈالو!پھر کیا ہوا؟
جنرل اروڑا کے قدموں میں ان اٹھانوے ہزار فوجیوں نے جن کا مقصد حیات غازی یا شہیدہونا ہوتا ہے سے ہتھیار ڈلوا دیئے گئے اور مسلم سپاہ کو ذلیل و رسوا کروا ڈالا گیا، مسلمانوں کی تاریخ میں کبھی مسلم افواج اتنی تعدا د میں کفار کے ہاتھوں قیدی نہیں بنیں یہاں پر فوجی جنرل کے حکم پر پابندی کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیے گئے اور جنرل نے بزدلی کی انتہائوں کو چھو کرسرنڈر کا فیصلہ کر ڈالا۔ ڈاکٹرباری نے کہا کہ شعوری یا لاشعوری طور پر ہی سمجھ لیویں کہ اٹھانوے ہزار فوجی کئی ماہ تک مزید جنگ لڑ سکتے تھے دوسری طرف صلح کے لیے سلامتی کونسل کے اجلاس بھی جاری تھے اور پاکستان وہاں پر احتجاج بھی ریکارڈ کروا چکا تھا
مسٹر بھٹو کو بھی وہاں پاکستانی مقدمہ پیش کرنے کے لیے بھجوایا جا چکا تھا جس سے باالآخر جنگ بندی لازمی ہو جانی تھی اور ملک کو تقسیم ہونے سے ہر صورت بچایا جاسکتا تھامگر یحییٰ خان خود کو صدر برقرار رکھنے کے لیے بھٹو سے ساز باز کرکے بنگالیوں سے جان چھڑانا چاہتا تھا آخر میں ڈاکٹر باری نے بتایا کہ ملک کو دو لخت کرنے کے لیے چاروں مذموم کردار یحیٰی اندرا گاندھی ، مجیب الرحمٰن اور بھٹو سب ہی غیر طبعی موت کا شکار ہوکر دوسری دنیا کو سدھار چکے ہیں
مگر آج بھی ہماری بیٹیاں بہنیں ہزاروں کی تعدا دمیں بھارت کے اُس بازار “کی زینت ہیںاور ہم غیرت ایمانی تو کیا ملک کے دولخت ہو جانے پر دو آنسو بھی بہانے کو تیار نہیں ہیں ۔ڈاکٹر باری نے بتایا کہ آج ہم مسلمان چند مرلوں کی زمین یا معمولی کاروباری دکان چھن جانے پر مقدمے بازی اور مرنے مارنے پر تُل جاتے ہیں مگر مسلمان جو سینکڑوں سال تک ہندوستان پر قابض رہے پھر بد کردار حکمران بادشاہوں کی عیاشیوں کی بدولت ہم سے چھن گیا ہم اسے گنوا کر بھی بت بنے تکتے رہے اور بعد میں کشمیر، جونا گڑھ اور کئی مسلم ریاستیں چھنوا بیٹھے اور مشرقی بازو بھی کٹوا بیٹھے اور بدلہ تو کیا لیتے عوام اور مقتدر حکمران رنگیلے باد شاہوں کی طرح آج بھی عیاشیوں میں مصروف ہیں یاد رکھو ! خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہو جسکوفکر خود آپ اپنی حالت بدلنے کا۔