بیجنگ (جیوڈیسک) چین نے افغانستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا اعلان کر دیا۔ بیجنگ حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سیاسی مصالحت کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔
افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے حوالے سے چین کا یہ بیان ایک ٹرین سٹیشن پر انتہا پسندوں کے حملے کے بعد سامنے آیا ہے جس کے لیے اس کے علاقے سنکیانگ کے شدت پسندوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ چین کے اس مغربی علاقے کی سرحد افغانستان کے ساتھ ملتی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شورش زدہ سنکیانگ میں سلامتی کے حوالے سے بیجنگ حکومت کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں موجود مسلمان انتہا پسندوں کو ہمسایہ ملکوں کے شدت پسندوں سے مدد ملتی ہے۔ سنکیانگ میں چین کے ایغور نسل کے مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں علیحدگی پسندوں نے گزشتہ ہفتے جنوب مغربی شہر کنمنگ میں ایک ٹرین سٹیشن پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم 29 افراد ہلاک اور تقریباً 140 زخمی ہوئے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس میں ایک بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ بیجنگ حکومت افغانستان میں سیاسی مصالحت کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہاں تعمیرِ نو کے کاموں کے لیے بھی مدد فراہم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ تمام دہشت گردوں سے مستقل مزاجی سے لڑائی کے لیے ہم افغانستان اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ وانگ نے بتایا کہ چین اگست میں افغانستان کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد وہاں پائیدار امن کی حوصلہ افزائی ہے۔
بیجنگ میں موجود سفارت کاروں کے مطابق دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ ساتھ چین نے حالیہ کچھ مہینوں کے دوران افغانستان میں زیادہ دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ ان کے مطابق بیجنگ حکام کو خدشہ ہے کہ نیٹو فورسز کے انخلاء کے بعد افغانستان میں عدم استحکام کی صورتحال کے اثرات سنکیانگ میں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔