تحریر :۔ انجم صحرائی پیرس میں چارلی ایبڈو نامی ایک ہفت روزہ میگزین کے دفتر میں گھس کر دہشت گردوں کے حملے میں سترہ افراد کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے خلاف فرانس میں ہونے والی ملین مارچ میں فرانس کے صدر فرانسواں او لاند سمیت ایک رپورٹ کے مطا بق تیس لاکھ سے زا ئد افراد کے اس تا ریخی یو نٹی مارچ میں فلسطین کے صدر محمود عباس، اردن کے شاہ عبد اللہ اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنیا مین نینتا ہو سمیت جرمن، بر طانیہ ، مالی سمیت دنیا کے چا لیس ممالک کے سر براہان نے شر کت کی۔ اس یو نٹی مارچ کی قیادت دہشت گردی کے شکار ہو نے والے افراد کے رشتہ داروں نے کی۔
وطن عزیز گذ شتہ چودہ سا لوں سے دہشت گردی سے بر سر پیکار ہے پا کستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پچاس ہزار سے زیادہ لا شے اٹھا ئے دہشت گردی کا شکار ہو نے والے معصوم پا کستا نیوں میں پاک فوج ،پو لیس ، رینجرز کے آ فیسرز اور جوان اور دیگر سول محکموں کے ملاز مین بھی شا مل ہیں ان کے علاوہ سول آ بادی کے بوڑھے ،معصوم بچے مردو خواتین سمیت ہلاک ہو نے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے ۔ دہشت گردوں نے نہ مساجد ، مدارس کو معاف کیا اور نہ ہی عید میلاد النبی اور محرم الحرام کے جلوسوں کو بخشا۔ نہ قبرستان ان کی دست برد سے محفوظ رہے اور نہ ہی جنازے اور میتیں ہی ان کے دلوں میں کو ئی رحم پیدا کر سکے ۔ عام گلی محلوں سے لے کر وطن عزیز کے انتہا ئی حساس علا قے بھی ان کا نشا نہ بنے اور عام پبلک سکو لوں میں بھی معصوم بچوں کا قتل عام کر کے دہشت گردوں نے سفا کیت کا وحشیانہ اظہار کیا مگر ان چودہ سالوں میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری سیا سی قیادت نے ایک دوسرے کا ہا تھ تھام کر دہشت گردوں کے خلاف اسلام آباد کی سڑ کوں پر یو نٹی مارچ کیا ہو ، جب انقلاب کے نام پر ملین مارچ ہو سکتے ہیں، دھا ند لی کے نام پر ملین دھر نے کے دھرنے د جا سکتے ہیں تو دہشت گردی کے خلاف ہا تھوں میں ہا تھ دے کر ملین یو نٹی مارچ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔
برعکس اس کے ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے ؟ شادیاں ڈھول ڈھمکے اور لڈ یاں نہ ہمیں کسی کی شا دی پر اعتراض ہے اور نہ ہی ہم شادیوں پر ڈھول ڈھمکے اور لڈ یاں ڈالنے کے مخالف ہیں لیکن لگتا ہے کہ عمران خان اور ریحام خان کی شادی نے پا کستا نی قوم کو سارے دکھ بھلا دئیے حتی کہ وہ دکھ بھی جس پر سبھی قوم ابھی تک کو مے کی حالت میں ہے ۔عین اس دن جب چیف آف آرمی سٹاف پشاور آرمی پبلک سکول کے معصوم شہداء کے ورثا کے ساتھ اجتماعی دعا میں شریک تھے ۔تحریک انصاف کے ٹا ئیگر اور عمران خان کے باراتی ڈھول کی تھاپ پر لڈ یاں ڈال رہے تھے لیکن یارو ہم بھی کملے ہیں جس نے شادی کرنا تھی کر لی جس نے ڈھول بجانا تھا بجا لیا جس نے ٹھمکا لگا نا تھا لگا لیا اب لگے ہو ئے ہیں کہ عمران خان نے سب کچھ ہو تے ہو ئے شادی پر صرف سا ڑھے پانچ لا کھ سے بھی کم خرچ کئے۔
کتنی سادہ شادی کی ہے واہ واہ ۔ مد رسہ کے بچوں کے ساتھ کھا نا کھا کر کتنا سادہ ولیمہ کیا ہے واہ واہ ۔ مبارک سلامت کی دھو نیوں کے ساتھ مفتیوں کے فتوے اس کے علا وہ کہ سبھی سیا ستدا نوں کو اپنے خان صاحب کے نقش قدم پر چلنا چا ہئیے کہ سا دگی میں بھی خان صاحب نا قا بل شکست رہے ہیں پہلے کی طرح ۔ لیکن شا ئد کسی نے نہیں سو چا کہ سا ٹھے پا ٹھے بندے کی دوسری شادی پہ یہ ڈھول ڈھمکا اور پھول تما شے کیا سجتے ہیں اس سے بھی آ گے کی بات کہ دولہا بھی وہ ہو جو دو نو جوان بچوں کا باپ ہو اور لا کھوں کے غرارے اور جیولری میں لپٹی اور لدی دلہنیا تین بچوں کی امی جان ۔ اگر ہمارے دیہات میں ایسا ہو تا تو شا ئد عورتیں دانتوں تلے انگلیاں داب کے وہ سب کچھ کہتیں ڈالتیں جو ایسے مواقع پر کہا جا تا ہے۔ مگر بڑے لوگوں کے اسلوب انو کھے ہو تے ہیں ادائیں اور مستیاں بھی عجیب ہو تی ہیں۔
Imran Khan
ہم نہ معلوم کس دنیا کی مخلوق اور کس دنیا کے باسی ہیں کہ پچھلے دس دنوں سے ہاہا کار مچی ہے ایک عام آدمی سے لے کر سراج الحق تک سبھی ایک صف میں ہا تھ باند ھے مبارک سلا مت کے ڈونگرے لئے عوام میں خو شیاں لٹا رہے ہیں واللہ ہمیں عمران خان اور ریحام خان کی شادی سے نہ کو ئی گلہ ہے اور نہ کو ئی شکا یت ۔ ہر بندے کی زندگی اس کی اپنی زندگی ہے اور اسے پو ری آزادی ہے کہ وہ جیسے چا ہے گذارے چا ہے وہ دوسری شادی کرے اور چا ہے تیسری ہم کون ہیں اسے روکنے والے ۔خان صاحب با لکل ٹھیک کہتے ہیں کہ تبدیلی آ نے والی نہیں آ چکی ہے اس تبد یلی کی ایک جھلک پشاور آرمی پبلک سکول میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کے ساتھ وہاں پہنچے وزیر اعلی کے پی کے اور دیگر پا ر ٹی راہنما بھی ان کے ساتھ تھے ۔ عمران خان کی سکول آ مد کے مو قع پر شہید بچوں کے والدین نے عمران خان کے خلاف شدید احتجاج کیا اور گو عمران خان گو کے نعرے لگا ئے ۔ ایک بچے کی والدہ نے عمران خان کے گریباں کو پکڑ کر کہا کہ تمہیں اپنی خو شیاں عزیز ہیں یہاں تم ہمارے دکھ با ٹنے نہیں بلکہ سیر سپا ٹا کر نے آ ئے ہو ۔ آپ جیسے چا ہیں اپنی زند گی گذاریں اور جیسے چا ہیں اپنی خو شیاں منا ئیں یقینا یہ آپ کا حق ہے مگر یہ حق آپ کے اور میرے پڑو سیوں کا بھی ہے کہ ہماری خو شیاں ان کے دکھوں میں اضا فے کا سبب نہ بننے پا ئیں یہ ایک سچا ئی ہے کہ معصوم جنازوں کے سوگ میں ڈوبے غمزدہ والدین کے دکھ کسی کی خو شیوں سے کم نہیں ہو سکتے۔
پشاور آرمی سکول سمیت پا کستان کے تمام تعلیمی ادارے مبینہ دہشت گردی کے خدشات کے سبب ہو نے والی طویل ترین تعطیلات کے بعد ایک بار پھر کھل گئے چیف آف آرمی سٹاف را حیل شریف نے اپنی اہلیہ سمیت پشاور آرمی سکول میں آ نے والے بچوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے سکول میں مو جود تھے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ تعطیلات کے بعد ملک کے ہرسکول میں آ نے والے بچے کو صدر مملکت اور وزیر اعظم سمیت سبھی سیا ستدان اور ارا کین اسمبلی بھی خو ش آ مدید کہنے کے لئے اپنے اپنے علا قوں کے تعلیمی اداروں میں مو جود ہو تے اگر ایسا ہو تا تو قو می سطح پر دہشت گردی کے خلاف ایک بہت بڑا میسج دیا جا سکتا تھا ْ مگر ایسا نہیں ہوا ۔لگتا ہے کہ حکمران اور سیا ستدان دہشت گردی کے مقا بلہ کا چیلنج صرف اور صرف پاک فوج اور چیف آف آرمی سٹاف کی ذ مہ داری خیال کرتے ہیں جبھی تو چیف آف آرمی سٹاف میدان جنگ میں اور سیا سی قیادت کانفرنس حالز میں لڑائی لڑتے نظر آ تی ہے۔
سنا ہے کہ ان 25 / 26 دنوں کی چھٹیوں کے دوران حکو متیں اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں مبینہ دہشت گردی کے خلاف ممکنہ سکیورٹی اقدامات کر نے میں مصروف رہیں ۔ کئے جانے والے ممکنہ سیکورٹی اقدامات میں تعلیمی اداروں کی حفا ظتی دیواریں اونچی کر نا ،سی سی ٹی کیمروں کی تنصیب سمیت اور بہت کچھ شامل ہے ۔ پا کستان کے دیگر شہروں کی طرح لیہ میں بھی انہی خطوط پر کام جا ری ہے ۔ مبینہ دہشت گردی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات میں حکومت کتنی سنجیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ گورٹمنٹ پو سٹ گریجیو ایٹ کالج کی نئی چار دیواری صرف ڈیرھ کروڑ کی لا گت سے تعمیر کی جا رہی ہے ۔ یہ بات نہیں کہ کالج کی چار دیواری نہیں تھی مگر یہ چار دیواری چو نکہ ا من کے زمانہ میں تعمیر ہو ئی تھی اور عرصہ دراز گذر جا نے کے بعد بھی شکست و ریخت سے بچی ثابت و سالم اپنے فرائض انجام دے رہی تھی شا ئد اسی لئے فیصلہ کیا گیا کہ اس امن کی نشا نی چھ سات فٹ اونچی دیوار کو گرا کر بالکل نئی آٹھ فٹ کی چا ر دیواری تعمیر کر لی جا ئے چو نکہ اب زما نہ امن تو ہے نہیں دہشت گردی کا دور ہے اسی لئے نئی اینٹوں کی بنی چار دیواری زیادہ سکیو رٹی فراہم کر سکے گی کالج کے معصوم طلبا کو ۔ سو بجا ئے پرانی چار دیواری کو اونچا کر نے کے نئی چار دیواری بنانے کا عظیم فیصلہ کیا گیا اسے گرا کر ڈیرھ کروڑ سے زائد فنڈ زاس چار دیواری کے لئے فراہم کئے گئے اور اب صورٹ حال یہ ہے کہ حفا ظتی چار دیواری جو 12 جنوری کو مکمل ہو نا تھی تا حال اس کی بنیادیں کھودی جا رہی ہیں اب یہ سکیورٹی منصوبہ کب مکمل ہو گا اللہ بہتر جا نے فی الحال تو کالج میں بغیر با ئونڈری وال کے پڑھائی ہو رہی ہے۔
امیر جما عت اسلامی سراج الحق ٹھیک کہتے ہیں کہ ہم صرف نظر آ نے والی دہشت گردی کا شکار نہیں بلکہ پوری قوم سیاسی ، معاشی ، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کی دہشت گردی کا بھی شکار ہے اب اسی لیہ کالج کی نئی تعمیر ہو نے والی چار دیواری کو ہی لے لیں اس دیوار کو اگر صرف اونچا کیا جا تا تو یہ دیوار مقررہ مدت میں مکمل بھی ہو جا تی اور اس کا بجٹ بھی کروڑوں کی بجا ئے لا کھوں میں ہو تا لیکن ایسے میں محکمہ کو کیا بچتا اور من پسند ٹھیکیددار کیسے ابلا ئج ہو تے بس یہی المیہ ہے ہما را ہو ئے ہیں کس قدر بے تو فیق فقیہان حرم کے مصداق ہم ایسے بے حس اور کٹھور ہو گئے ہیں کہ بے شناخت لا شوں کے لئے کفن خرید نے اور قبروں کی کھدائی میں بھی کمیشن ما فیا مال بنا تا نظر آ تا ہے۔