کراچی (جیوڈیسک) وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سانحہ صفورا سے متعلق کچھ گرفتاریاں کی ہیں تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہی اصل کردار ہیں تاہم ملزمان سے ہونے والی تفتیش میں پیش رفت ہورہی ہے جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ٹی ٹوئنٹی نہیں بلکہ صبر آزما طویل جنگ ہے۔
کراچی میں سول اورعسکری حکام سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سانحہ صفورا کا درد صرف اسماعیلی برادری کو ہی نہیں بلکہ پوری قوم نے اسے محسوس کیا، معصوم انسانی جانوں سے خون کی ہولی کھیلنے والے ابھی ختم نہیں ہوئے، امید ہے کہ جلد دہشت گردوں تک پہنچ جائیں گے اور جب بھی اس قسم کا دلخراش واقعہ پیش آئے تو ہمیں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد جب اس قسم کے ٹارگٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو وہ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ مایوسی پھیلانا چاہتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ ٹی ٹوئنٹی نہیں بلکہ صبر آزما طویل جنگ ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ جب حکومت سنبھالی تو دہشت گردی عروج پر تھی جب کہ 2007 سے 2011 دہشت گردی کے بدترین سال تھے تاہم ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے انٹیلی جنس کی بنیاد پر10 ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے اور اس دوران متعدد کارروائیوں کو روکتے ہوئے 36 ہزار سے زائد گرفتاریاں ہوئیں، بارودی مواد برآمد ہوا لیکن میڈیا میں اس کی تشہیر نہیں ہوتی اور ایک دھماکے کے بعد سیکیورٹی ایجنسیز کی مہینوں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد 3 ہزار انٹیلی جنس بیس آپریشن کئے گئے جس کی وجہ سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں واضح کمی واقع ہوئی، جو لوگ پاکستان سے آگ اور خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ان میں سے کچھ مارے گئے کچھ سرحد پارکرکےفراراور کچھ چھپے ہوئے ہیں جنہیں بہت جلد ڈھونڈ نکالیں گے یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ رینجرز ہیڈکوارٹر میں بہت سی نئی پالیسیوں پر بات کی گئی ہے جس پر تمام صوبوں سے مشاورت ہوگی جب کہ وزیراعلی سندھ سے کراچی میں پرائیوٹ سیکیورٹی ایجنسیز پر بھی تبادلہ ہوا، شہر میں 300 سے زائد پرائیوٹ سیکیورٹی ایجنسیز ہیں لیکن بدقسمتی سے اہلکاروں کی درست تربیت نہیں اور بعض پرائیوٹ گارڈز کو اسلحہ چلانا بھی نہیں آتا جب کہ نجی سیکیورٹی ایجنسیاں بنانےکا مقصد سول آرمڈ فورسزکی مددکرنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا اس لئے نجی سیکیورٹی ایجنسیوں کا بھی شفاف طریقے سے احتساب ہونا چاہیے۔