کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ ہم نے سولہ سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پیڈ ورکر کی طرح سے کام کیا، ڈالر کی ایڈ کے عیوض ہم نے زمین بھی گروی رکھی، اپنے فوجی اڈے بھی دیئے، سینکڑوں جوانوں کو فرضی شہادت کا شکار بھی کیا، پچاس ہزار پاکستانیوں کی قیمتی جانیں بھی قربانی میں دی مگر پھر بھی بے وفائی کے طعنے ملے اور جو اجرت طے کی گئی تھی وہ بھی نہیں ملی، امریکی ایڈ نے ہمیں عالمی بھکاری بنا دیا اور اب حال یہ ہے کہ ایک امریکی اپنی تقریر میں پاکستان کو چور بھی کہتا ہے، گالی بھی دیتا ہے اور پاکستان کے کردار اور قربانی کو فریب کا نام دیتا ہے، ہماری کمزور ترین خارجہ پالیسی نے ملکی عزت و احترام کو دیوار سے لگا دیا ہے۔
کیا پاکستان کو اس جنگ میں جھونکنے والے عقلمند لوگ ہمیں جواب دے سکتے ہیں کہ پاکستان نے سولہ سالہ طویل جنگ میں سوائے لاشوں کے، ملک میں جاری بد امنی کے، اور تباہ حال معیشت کے کیا پایا؟ دفتر خارجہ نے صرف اخباری بیان میں ٹرمپ کو جواب دیا ہے، امریکہ کونسلر جنرل یا امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاج نہیں کیا ہے، قوم کے نوجوانوں کو کیا جواب دیا جائے کہ ہم اتنے بے بس ہیں کہ امریکہ گالی بھی دے تو ہنس کر ٹال دیتے ہیں؟جمعیت علماء پاکستان اس عمل کی شدید ترین مذمت کرتی ہے، پاکستان کے حفاظتی اداروں اور فوج کے سپہ سالار کو سخت فیصلے لینے ہونگے، ہم امریکی پالیسیوں سے یکسرخود کو الگ کرنا ہوگا۔
جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی و سالانہ امام نورانی ورکرز کنونشن کے کامیاب انعقاد کے بعد کراچی آمد پر کارکنان کے استقبال کے موقع پر جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ دہشت گردی کی خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستان کو اجر عظیم مل گیا، زمین دی، فوج دی، لوگ دیے اور ہزاروں کی قربانی دی مگر حقیقت سامنے آگئی، امریکہ ہم سے برابری کی سطح پر نہیں بلکہ مالکانہ حقوق کے ساتھ نوکری کروا رہا تھا، یہ غلط فہمی کہی جائے یا کم فہمی کہی جائے؟ ڈونالڈ ٹرمپ کس کی شہ پر پاکستان کے خلاف بکواس کر رہا ہے؟اس موقع پر جمعیت علماء پاکستان صوبہ سندھ کے سینئر نائب صدر عبدالمجید اسماعیل نورانی، جے یو پی کراچی کے رہنما محمد امین نورانی اور انجمن طلبہ اسلام پاکستان کے مرکزی صدر محمد زبیر صدیقی ہزاروی بھی موجود تھے۔