تحریر : کوثر رحمتی خان سانحہ پشاور کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد پوری دنیا سے زیادہ ہو گئی گذشتہ 6 سالوں کے دوران مجموعی طور پر 12409 افراد جاں بحق جبکہ 31345سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا اور فاٹا کے افراد دہشت گردی کی جنگ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں اس سلسلے میں دستیاب اعدادو شمار کے مطابق خیبر پختونخوا ہ میں مجموعی طورپر 4345افراد جاں بحق جبکہ 11056افراد زخمی ہوئے ہیں فاٹا میں اب تک 4346 افرادجاں بحق جبکہ8644افراد زخمی ہوئے ہیں بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 1759افراد جاں بحق جبکہ 5729افراد زخمی ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ہزارہ برادری کو خصوصی طورپر نشانہ بنایا گیا پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات میں `1043 افراد جاں بحق جبکہ3353 افراد زخمی ہوئے ہیں سندھ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں 681افراد جاں بحق جبکہ 2559افراد زخمی ہوئے ہیں اسلام آباد میں دہشت گردی کے واقعات میں 165افراد جاں بحق جبکہ 482زخمی ہوئے ہیں گلگت بلتستان میں 67جاں بحق 92زخمی جبکہ آزاد جموں کشمیر میں 15جاں بحق جبکہ 69زخمی ہوئے ہیں پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری ضرب عضب اپریشن کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں بے حد کمی ہوئی ہے پشاور میں ہونے والا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جبکہ دنیا میں دوسری بڑا واقعہ ہے۔
پشاور میں سکول پر دہشت گردی کے المناک واقعہ میں 130 سے زائد بچوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ پاکستان میں اس سے قبل بھی بچوں کو نشانہ بنایا گیا تاہم یہ واقعہ بچوں پر حملے کے حوالے سے ملکی تاریخ کا بدترین واقعہ تھا۔ دنیا بھر میں بچوں پر کئی بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ 9 اکتوبر 2012ء کو سوات میں طالبات کی ایک بس کو روک کر ملالہ یوسفزئی پر فائرنگ کی گئی۔ روس میں شمالی اویشیا کے علاقے لبسلان میں چیچن علیحدگی پسندوں نے یکم ستمبر 2004ء کو حملہ کرکے 1200 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جس کے بعد روس کی سکیورٹی فورسز کے حملے میں 186 بچوں سمیت 331 یرغمال ہلاک اور 400 زخمی ہو گئے تھے۔ اس آپریشن میں 31 علیحدگی پسند بھی ہلاک ہوئے۔ نائیجریا میں عسکریت پسند تنظیم بوکوحرام کئی مرتبہ بچوں پر حملے کرچکی ہے۔ 14 اپریل 2014ء 276 سکول کی طالبات کو اغوا کرلیا۔ ان میں سے کئی تو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں تاہم 219 بچیاں تاحال لاپتہ ہیں۔
فلپائن میں 28 جنوری 1999ء کو کوٹاباٹو کے قریب ایک سکول کے 500 طلبہ اور 70 اساتذہ کو اغوا کر لیا گیا۔ یہ کارروائی مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے کی بعدازاں سب کو رہا کر دیا گیا۔ امریکہ میں سکول کے بچوں پر فائرنگ کے واقعات خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ 16 اپریل 2007 ء کو ورجینیا ٹیک کے کمپلیکس میں فائرنگ سے 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 14 دسمبر 2013ء کو کیٹکٹی کٹ کے نیوٹائون ایلمنٹری سکول میں فائرنگ سے 20 بچوں سمیت 26 افراد کو خون میں نہلا دیا گیا تھا۔ 20 اپریل 1999ء کولوبریڈو میں 13 بچے ہلاک کر دئیے گئے۔ جرمنی کے علاقے ایرفرٹ میں ایک سکول میں 16 افراد کو مار دیا گیا تھا۔ مارچ 1996ئی میں سکاٹ لینڈ میں بھی 16 سکول کے طلبہ کو ایک شخص نے قتل کر دیا تھا۔ ناروے میں 22 جولائی 2011ء کو ایک سمر کیمپ پر حملہ کیا گیا۔ اندرز بہرنگ بریویک نامی انتہا پسند گروپ نے بچوں سمیت 77 افراد کو خون میں نہلا دیا تھا۔صوبائی دارلحکومت پشاور میں رواں سال کے دوران دہشت گردی ، خود کش حملوں کے 230سے زائد واقعات رونماء ہو ئے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال یکم جنوری سے 16دسمبر تک صوبے بھر میں دہشت گردی کے 530کیس ہو ئے۔
Dead Body
بھتہ خوری کے 291، ٹارگٹ کلنگ کے 150، اغواء کے 1102، گاڑی چوری ہونے کے 835، جبکہ مجموعی طور پر جرائم کے 109454واقعات رونماء ہو ئے۔2012میں اکیس خود کش حملے ، 271دھماکے اور چھ گاڑیوں کے ذریعے دھماکے ہو ئے۔2013میں اٹھارہ خود کش حملے ، 284دھماکے ، 2014میں گیارہ خود کش حملے ، 222دھماکے اور تین مختلف واقعات رونماء ہو ئے ہیں۔پشاور میں ملکی تاریخ کے دردناک ترین قومی سانحہ کے حوالے سے کچھ چشم کشا حقائق سامنے آئے ہیں۔ صوبے کے سب سے بڑے آرمی پبلک سکول میں 1093 کے قریب طلبا زیر تعلیم تھے جن میں 763 فوجی حکام جبکہ 247 عام شہریوں کے بچے زیر تعلیم تھے۔ دہشتگردوں کے پاس سکول کا نقشہ سمیت تمام اہم ترین معلومات موجود تھیں۔ سینئر عسکری حکام کو سکول کے اندر سے بعض افراد کی معاونت کے شواہد ملے ہیں۔ دہشتگردوں نے کینٹ کی طرف سکول کے مرکزی دروازے کی بجائے بیرونی دروازے کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔ سکول میں داخل ہونے سے قبل دہشتگردوں نے دو فوجی چوکیوں کو بآسانی عبور کیا اور بھاری اسلحہ کے ہمراہ پشاور کے حساس ترین علاقے میں داخل ہوئے۔ سکول پر حملہ سے قبل حساس اداروں اور سپیشل برانچ کی طرف سے پہلے کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ سینئر عسکری حکام نے مقامی اخبار سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دہشتگرد اس طرح کی کارروائی کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں، بعض طلبا کو قطاروں میں کھڑا کرکے گولیاں ماریں گئی۔ درندہ صفت افراد نے بچوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور بعض بچوں کو تیز دھار آلات سے بھی درندگی سے شہید کیا گیا ہے۔ دہشتگردوں کے پاس بچوں کی فہرستیں موجود تھیں جن کا نام پکار پکار کر بچوں پر گولیاں برساتے رہے۔دہشت گردوں نے سکول پر حملے کے بعد درندگی کی ایسی مثال قائم کی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
انٹیلی جنس اداروں کے مطابق دہشت گرد ایک سوزوکی کیری ڈبہ میں آئے جسے بعد ازاں انہوں نے اس لئے جلادیا تاکہ لوگوں کی توجہ اس جانب مرکوز ہوجائے، تمام لوگوں کی توجہ اس طرف مرکوز ہوئی اور وہ سکول میں داخل ہوگئے۔ دہشت گرد تہکال سے بہاری کالونی آئے اور اپنے ساتھ سیڑھی بھی لائے تھے جس کے بعد وہ سکول کے اندر داخل ہوئے۔ جس علاقے سے دہشت گرد آئے وہاں پر افغان مہاجر کیمپ بھی ہے۔ دہشت گرد بچوں سے ان کے والدین کے بارے میں بھی پوچھتے رہے۔ ایک سیکیورٹی اہلکار کی بیوی کو بچوں کے سامنے جلادیا گیا، ایک میجر کی بیوی اور دو بچوں کو بھی شہید کیا گیا۔ سانحہ میں ایک اعلیٰ فوجی افسر کی بیوی جو سکول ٹیچر تھی کو بے دردی سے شہید کیا گیا، ایک صوبیدار کے بیٹے کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں۔ بڑے بچوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا اور انہیں سروں اور چہروں پر گولیاں ماری گئیں، اگر کوئی بچہ فائرنگ سے بچ جاتا یا معمولی زخمی ہوجاتا تو اس کے بعد دہشت گرد ان بچوں کے قریب جاکر ان کے سینوں اور سروں میں گولیاں مارتے۔آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی نے جرات اور قربانی کی تاریخی رقم کرکے سکول کے معصوم بچوں کو اکیلا چھوڑ کر خود بحفاظت نکلنے سے انکار کردیا اور جان کا نذرانہ دے کر خود کو امر کردیا۔ فوجی کمانڈوز آپریشن کے دوران پرنسپل طاہرہ قاضی کو بحفاظت باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے تاہم ان سے رہا نہ گیا اور کمروں میں موجود بچوں جو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر تھے، کی فکر میں وہ اپنی فکر چھوڑ کر دوبارہ سکول کے اندر چلی گئیں۔ بعد میں ان کی جلی ہوئی لاش ملی جس کی گزشتہ رات تک شناخت بھی نہیں ہوپارہی تھی، اسی بناء پر ان کے بدقسمت خاندان کے افراد ان کو رات گئے تک تلاش کرتے رہے۔
ہسپتالوں اور سکول میں پڑی لاشوں میں ان کی لاش کو ان کے خاندان والوں نے ان کے زیورات سے پہچانا۔ پرنسپل طاہرہ قاضی گزشتہ پندرہ سال سے آرمی پبلک سکول و کالج میں خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ سانحہ پشاور کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس سانحہ سے پوری پاکستانی قوم کو بہت دکھ ہوا ہے۔ پاکستان کا کوئی گھر ایسا نہیں رہا جہاں پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کا غم نہ منایاگیا ہو۔ دہشت گردی کے حوالے سے مضبوط اور موثر پالیسی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔دنیا کے اندر دہشت گردی کی تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کے خاتمے کیلئے تمام آپشن کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے جائیں اور سیاسی حکومتوں کا انتظامی سطح پر بھی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کیلئے جن اقدامات کو بروئے کار لانا چاہیے تھا وہ نہیں ہوسکے ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ مضبوط اور موثر حکمت عملی سے ہی ممکن ہے۔