اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پیش کر دیے گئے ہیں۔ ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کیلئےیہ ایک اچھی شروعات ضرور ہے لیکن اصل تبدیلی مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لانے سے آئے گی۔
فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے آئین میں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کےبل قومی اسمبلی میں پیش کردیےگئے ہیں۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کہتے ہیں کہ پرامید ہیں کہ عدلیہ بھی آئینی ترمیم کی حمایت کرے گی۔ وفاقی وزیر سیفران کا کہنا ہے کہ عبدالقادر بلوچ ہر جج کو احساس ہو گا کہ ہمارے ملک کی ضرورت ہے یہ اور اس پر ہمیں حمایت حاصل ہو گی۔
ملٹری کورٹس کے قیام سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی اس کے لیے مائندسیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ بعض سیاسی جماعتوں کےیہ تحفظات تودورہوگئے کہ فوجی عدالتیں سیاسی کارکنوں کےخلاف استعمال کی جاسکتی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں لائے گئے بلز پر بعض ارکان کے تحفظات ابھی باقی ہیں۔ جے یو آئی ف کے سینیٹر حافظ حمد اللہ کہتے ہیں کہ قانون عدلیہ اس کی مخالفت کر رہا ہے کہ آئین سے ماورا ہے، 35سال میں آپ ملٹری کے طریقے سے امن نہ لا سکے اب کیسے لائیں گے، ساری پارلیمنٹ کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما رشید گوڈیل کا کہنا ہے کہ ہمارے تحفظات تھے، جیٹ بلیک دہشت گرد کی اصطلاح متارف کروائی گئی ان کے خلاف کاروائی ہو گئی۔
وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی کا کہنا ہے کہ ملٹری عدالتیں سیاسی مقاصد کے لیے نہیں، یہ دہشت گرد درندوں کے لیے ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین ملٹری کورٹس کے قیام پر متفق ہیں اورانہیں یہ امیدبھی ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کرکے دہشت گردی کےخاتمہ کر لیا جائے گا۔