تحریر: غلام مرتضی باجوہ سانحہ پشاور کے بعد پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لئے تنگ ہو چکی ہے۔پشاور سکول کے شہدا کے خون نے دہشتگردوں اور باقی قوم کے درمیان حد فاصل قائم کر دی ہے۔اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کرنے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں نے ہفتہ بھر کی محنت شاقہ کے بعد جو تجاویز تیار کی تھیں ، وزیراعظم ہائوس میں منعقد میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی موجود تھے۔
گیارہ گھنٹے طویل اجلاس کے بعد بالآخر یہ اعلان سامنے آیا کہ ملک کی ساری سیاسی جماعتیں دہشتگردی کے معاملات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتیں بنانے پر متفق ہو گئیںہیں۔ یہی اس اجلاس کا اہم ترین فیصلہ بھی تھا۔فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ بظاہر اتفاق رائے کے باوجود ایک اختلافی فیصلہ ہے۔ اس طرح ملک کی سیاسی قیادت نے سول نظام کو استوار کرنے اور اصلاح احوال کی بجائے ہر مسئلہ کا حل فوج کی امداد کے اصول پر عمل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کا نسخہ تجویز کیا ہے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں ہونے والے سپریم کورٹ کے ججز’ ہائی کورٹس اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے ججوں کے اجلاس میں سپریم کورٹ میں زیر التوا تمام فوجداری مقدمات کو آئندہ سال جون سے پہلے نمٹانے کیلئے حکمت عملی تیارکر لی’ تمام فوجداری مقدمات کوکیٹگریز میں تقسیم کر دیا گیا’31 مئی تک سپریم کورٹ میں کوئی فوجداری مقدمہ زیرالتوا نہیں رہے گا’ فوجداری مقدمات کو مختلف کیٹگریز میں رکھنے کیلئے 2 سیشن ججزکو ذمے داریاں دے دی گئیں’ سپریم کورٹ کے 2جج جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ براہ راست عمل کی نگرانی کریں گے۔
انسداد دہشت گردی قانون مجریہ1997ء کے تحت عسکریت’ بم حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور مذہبی منافرت سے متعلق زیرالتوا اپیلوں اور آئینی درخواستوں کو آئندہ سال مارچ میں نمٹا دیا جائیگا’ انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت دائر قتل اور اغوا کے مقدمات’ معاشرے میں خوف پھیلانے’سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور تعزیرات پاکستان کے تحت دائر مقدمات کے فیصلے جون سے پہلے کردئیے جائیں گے۔
Criminal Cases
بتایاجاتا ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 3200 فوجداری مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں سے 1600 مقدمات سماعت کیلئے لگانے کیلئے متعلقہ برانچ بھیج دیئے گئے ہیں۔ ان 1600مقدمات کا فیصلہ اگلے 2مہینے میں کر دیاجائے گا۔اس وقت روزانہ 50 سے 60 مقدمات نمٹائے جا رہے ہیں جبکہ مقدمات دائرہونے کی شرح 35سے45روزانہ ہے۔ موجودہ عدالتی سال کے دوران اب تک سپریم کورٹ نے مجموعی طور پر 13872 مقدمات کافیصلہ کیا ہے جبکہ 19932 مقدمات زیر التوا ہیں۔
عالمی میڈیا پرجاری تبصروں میں کہا جارہے کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اس لئے ہنگامی نوعیت کے فیصلے کرنا بے حد ضروری ہے۔ اجلاس میں متعددپاکستانی لیڈروں نے امریکہ اور دوسرے ملکوں کی مثال بھی دی ہے جہاں وقت ضرورت فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں۔ تاہم یہ لیڈر یہ یاد رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ پاکستان کے سیاسی مزاج میں امریکہ اور اس سے متعلق روایات غلط اور تمام خرابیوں کی جڑ قرار دی جاتی ہیں۔ پھر بھی عوام کو ایسے ہی ملک کی مثال سے متاثر کرنے کی کوشش کرنا بے بس اور بے بصر سیاستدانوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔
قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ آئین میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے آئین میں ضروری ترمیم کرنا ہو گی۔ وگرنہ سپریم کورٹ ماضی کی طرح اس بار بھی اس متوازی نظام عدل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے گی۔تاہم قوم کے ساتھ حکومت اس وقت اضطراری کیفیت سے دوچار ہے اور کچھ کر گزرنے کا ارادہ رکھتی ہے خواہ اس کا کوئی بھی نتیجہ برآمد ہو۔ اگرچہ عملی طور پر فوجی عدالتیں قائم کرنے کے فیصلے کا مقصد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف کارروائی مؤخر کرنے کے مترادف سمجھا جانا چاہئے۔ کیونکہ اس فیصلہ پر عمل کرنے کے لئے ابھی پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم منظور کروائی جائے گی۔ پھر سپریم کورٹ میں اس حوالے سے اپیلیں دائر ہوں گی۔
ممکن ہے کہ اس اصول کو بھی سامنے لایا جائے کہ کیا پارلیمنٹ آئین میں کوئی ایسی ترمیم کرنے کی مجاز ہے جو انسانی حقوق اور انصاف سے متعلق اس کی روح کے منافی ہو۔ 16 دسمبر کے سانحہ کے بعد حیرت انگیز طور پر پاکستان کے سارے سیاسی لیڈر سرگرم عمل ہیں۔ دھرنا ختم کرنے سے لے کر فوجی عدالتیں قائم کرنے کے فیصلوں پر اتفاق بھی کر رہے ہیں اور تحسین بھی وصول کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی یہ بات کرنے پر تیار نہیں ہے کہ یہ کیسا جمہوری طریقہ ہے جس میں چند لوگ پارلیمنٹ کو نظر انداز کر کے اہم فیصلے کرنے کے مجاز بنے ہوئے ہیں۔