تحریر: شاہ بانو میر حالیہ امریکہ میں ہوئی دہشت گردی نے جیسے ایک بار پھر پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے٬ سال 2001 میں 9 11 کے بعد سے دنیا جس انداز سے ادھیڑ کر دہشت گردی کو بری طرح سے پھیلا دیا گیا ٬ سب اہل دانش غور و فکر میں مبتلا ہیں کہ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا پاک چائنہ کاریڈور کا افتتاح کیا ہوا دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹ گئے۔
مضبوط اتحادی بھی طوطا چشمی پے آمادہ ہو گیا وہاں کاصدارتی امید وار جو بھارتی پراپگینڈے کے زیر اثر پاکستان کیلیۓ نفرت انگیز بیانات دے رہا تھا ٬ حالیہ واقعہ نے اسکی مقبولیت بڑھا دی ٬ جب اس نے کہا کہ وہ آئے گا دہشت گرد ملکوں کی امیگریشن ختم کرے گا اسلحہ اب آسانی سے ہر ہاتھ میں نہیں جا سکے گا٬ پاکستان اسکی تقاریر کی تکرار کیا ہونے جا رہا ہے اور ہم لاتعلق ہیں مستقبل میں اس ممکنہ خوفناک مسئلے کے حل کیلئے ؟ گزشتہ ادوار کی نسبت یہ واقعی حقیقی معنوں میں خوفناک نازک گھڑی ہے آپ کا ملک اندرونی بیرونی دونوں جانب سے دشمنوں میں گھِرا ہوا ہے٬ ایسے میں چیتے کی پھرتی اور شیر کا رعب رکھنے والا جنرل راحیل ہر طرف چوکنا ہوتے ہوئے بھی سو فیصد دفاع وطن نہیں کر سکتا٬۔
کیونکہ اندرونی خانہ جنگی یعنی سول وار جب بڑی طاقت کروانا چاہتی ہو تو اسے کمزور ایمان فروش خود طاقت فراہم کر کے پنپنے کا موقعہ دیتے ہیں یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں٬ کمزور لاغر پاکستان کسی سیاسی کھلاڑی کو جیت کر بھی کچھ نہیں دے گا سوائے بھیک کے کشکول کےملک چلانے کیلئے٬ خُدارا!! یہ بڑے بڑے سیاسی نام یہ بڑے بڑے سیاسی نا خدا کیوں نہیں وقت کی نزاکت کو دیکھ رہے؟ اس وقت سیاسی مخالفت ذاتی مخالفت دکھائی دے رہی ہے ایک یا کچھ لاشوں کی منتظر یہ اپوزیشن سیاست میں کونسی جماعت ایسی ٹیم رکھتی ہے جو کسی بھی اہم سیاسی تبدیلی پر سامنے ایک طاقتور جماعت لا کھڑی کرے گی؟ ایک سیاسی جماعت عوامی پزیرائی کھو چکی ہے٬ اس کے پاس سیاسی بہترین دماغ ہیں جو سیاست کرنا جانتے ہیں۔
Pakistan’s economy
مشکل دور میں پاکستان کی معیشت کیلئے وہ ناکام حکومت کا ریکارڈ رکھتے ہیں٬ دوسری جماعت ہے جس میں جوش بہت ہے مگر اندرونی خلفشار اتنا زیادہ ہے کہ ان سب کو ایک میز پر بٹھا کر ایک سوچ کے ساتھ ملک کو چلانا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے٬ سب کا ہدف ایک وزیر اعظم ہے٬ جبکہ ملک کی سالمیت اور اس کا دفاع داؤ پر لگا ہوا ہے یہ وقت انتقامی سیاست کا نہیں ہے٬ بلکہ ٹھنڈے دل سے پاکستان کو بچانے کا ہے٬ ہمارے خارجی داخلی معاملات کوبڑی طاقتیں خانہ جنگی میں تبدیل کر کے ملک کے کئی ٹکڑے کروانے پرآمادہ ہیں٬ مزید جلتی پر تیلی کا کام حالیہ امریکی دہشت گرد حملے نے کر دیا ہے؟۔
٬ جس پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے امریکی اعلیٰ حکام ان کے بھڑکتے ہوئے تضحیک آمیز بیانات وہ اور ان کا منہ زور میڈیا نام لے لے کر پاکستان کو دہشت گرد اور اپنا دشمن کہ رہے ہیں٬ ایسے وقت میں اندرونی محاذ آرائی پرکیا تاریخ معاف کر سکے گی سوچیں یہ وقت الجھنے کا نہیں وزیر اعظم کو کمزور کر کے پاکستان کو مزید نحیف کرنے کا نہیں ٬ حکمت عملی طے کر کے اپنے خلاف سازش کرنے والوں کے اِس تیلیوں کے گٹھے کو کھولیں تا کہ اکٹھے ہوئے دشمنوں کو ایک ایک کر کے نیست و نابود کریں ٬ جب دشمنوں کا صفایا ہو جائے تو پھر آپ مشترکہ لائحہ عمل طے کر کے سیاسی قوت کا کامیاب مظاہرہ کریں ٬ اس وقت سیاستدانوں کی ذمہ داری”” عام پاکستانی”” نبھا رہا ہے وہ ہر سیاسی محاذ آرائی کا سنتا تو ہے مگر اپنے لئے چائنہ کاریڈور میں کامیاب مستقبل اسے کسی بھی جزباتی رد عمل سے روکتا ہے۔۔
عام آدمی کی پکار ان سیاستدانوں کو سننی چاہئے جو دبی دبی آواز میں حکومت کا ساتھ دینے کواوریکجہتی دکھانے کا کہ رہا ہے٬ کامیاب پاکستان سیاست کی شان ہے اور خوشحال پاکستان کا راز پاک چائنہ کاریڈور کا قیام ہے٬ جس کو ختم کرنے کیلئے دشمن سر توڑ کوششیں کر رہا ہے٬ کیا آپ بھی ان کوششوں کا ساتھ دیں گے؟ امریکہ بھارتی افغانی جاپانی اتحاد پے چہ بہ جبیں نہیں ہو سکتا کیونکہ بھارت مضبوط داخلی اور خارجہ پالیسی رکھتا ہے ٬ ہم نے پہلے دن سے ہی اس بڑی طاقت کو زمینی خدا (نعوز باللہ ) سمجھتے ہوئے”” یس سر”” کہ کر ایسا نشہ اس کو لگا دیا کہ ہم پے آنکھیں نکالنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھنے لگا٬۔
Trump
امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ کی صدارت پہلے تو مشکوک تھی مگر اب حالیہ دہشت گردی کے واقعہ نے اس کی مقبولیت میں دو چند اضافہ کر دیا ہے ٬ اس کی سیاست کی بنیاد مسلمان اور پاکستان کو امریکہ سے بیدخل کرنے پر ہے دہشت گرد ملکوں کیلئے امیگریشن قوانین کی تبدیلی کے نعرے نے اس کو مقبول عام بنا دیا ہے٬آسان لفظوں میں اب مسلمان ایک ملک کے سفر سے روکے جائیں گے اس کی تقلید دوسرے ممالک بھی کریں گے٬ یوں مسلمانوں پر اعلیٰ تعلیم بہترین کاروباری مواقع اور جدید ترقی کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کرنے کا منصوبہ بنایا جائے گا٬ گویا انہیں مسلمان ہونے کی سزا دی جائے گی۔
ایسے اقدامات سے دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی٬ قدامت پسند اور جدت پسند ہر دو صورتیں کیا بہترین ہیں؟ کیا گلوبل ویلج کی سطح پر دنیا کو لا کر ٹیکنالوجی کو ترقی پزیر ممالک کے ناتواں لوگوں میں تقسیم کر کے انہیں سادگی سے ہٹا کر عقائد سے منحرف کر کے انکی مذہبی سوچ کو منتشر کر کے جب وہ آپ کے رنگ میں رنگے گئے تو اب ان کو خود سے الگ کر دیں گے؟ ایسا کرنا اور ایسا کہنا شائد مضر نتائج کا حامل ہوگا ٬ دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی غیرت کا تناسب یورپی ممالک کی چاپلوسی سے بےشک کم ہو چکی ہے ٬ مگر اولے پڑنے سے پہلے ہی انہیں چاہئے کہ چھتری کا بندو بست کر لیں۔
خاص طور سے پاکستان کیونکہ بھارتی لابی کی کامیاب لابنگ ٹرمپ کے لہجے میں پاکستان سے شدید نفرت سے ثابت ہوتی ہے٬ اندرونی خانہ جنگی خواہ سیاسی ہو یا معاشرتی سر دست اسے پس پشت ڈالتے ہوئے اک نگاہ ان خاندانوں پر ڈالیں اور جو مستقبل کے خوف سے کانپ رہے ہیں٬ اس وقت سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے جس کیلئے حکومت وقت کو اندرونی سیاسی خلفشار سے چھٹکارہ ملے گا تو وہ کچھ منصوبہ بندی کر سکیں گے٬ سوچئے کہ اب نہیں تو کب ؟۔