تحریر : سید انور محمود آپریشن ضرب عضب کے بعد پاکستان میں دہشتگردی میں بہت حد تک کمی آئی ہے اور یہ دعوی بھی کیا جارہا ہے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر حالیہ دہشتگردی سے صرف ایک روز قبل وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کا دورہ کرنے والی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لگارڈ کو ایک ملاقات میں بتایا تھاکہ ملک میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک توڑ دیے گئے ہیں اور اس وقت بھی پاکستان کے دو لاکھ فوجی دہشت گردی کے خاتمے کےلیے تعینات ہیں۔آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم 70 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی تھی، جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تعداد وکلا برادری کے لوگ تھے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے اس واقعہ کا ذمہ دار بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو قرار دیا تھا۔ تازہ ترین دہشتگردی میں جو 24 اکتوبرکی رات سریاب روڈ پر واقع پولیس کے تربیتی مرکز میں تین مسلح دہشت گردوں نے کیا تھا، اس میں 61 اہلکار جاں بحق ہوئے اور100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جو زیادہ تر پولیس ٹرینی تھے۔ دہشتگردوں نے اس واقعہ کے بعد اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ بڑی شان سے سینہ ٹھونک کر بتایا کہ ہم داعش ہیں اور یہ دہشتگردی ہم نے کی ہے اور تم ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے، تھوڑی دیر کےبعد بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نےوضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والا حملہ ’’داعش نے نہیں بلکہ لشکر جھنگوی العالمی نے کیا ہے‘‘۔
عام طور پر تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ دہشتگرد ہمیں ماررہے ہیں لیکن ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ دہشتگرد کامیاب کیسے ہوجاتے ہیں ۔ آپ اگر آٹھ اگست اور 24 اکتوبر کے واقعات کی چھان بین کرینگے تو نتیجہ میں دہشتگردوں کی کامیابی کے پیچھےذمہ داروں کی غیرذمہ داریاں اور لاپرواہیاں ظاہر ہونگیں۔ آٹھ اگست کے سول ہسپتال کےواقعہ میں خودکش حملہ آور اس لیے کامیاب ہوا کہ ہسپتال کے احاطے میں کہیں بھی جیمرز موجود نہیں تھے، حکام نے واقعے کے بعد ہسپتال کے احاطے میں جیمرز لگا دیئے، اگریہ پہلے لگا دیئے جاتے تو شاید ہم اتنی بڑی دہشتگردی سے بچ جاتے۔
Police Training Centre Quetta Attack
کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز میں ہونے والی دہشتگردی کے بارئے میں بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا حملے کے وقت سینٹر میں 400 زیر تربیت اہلکار موجود تھے۔ جو اپنے کمروں میں سو رہے تھے۔ زیر تربیت اہلکاروں کو ایک شدت پسند نے یرغمال بنایا ہوا تھا اور جیسے ہی سکیورٹی اہلکار اس کمرے میں داخل ہوئے دہشت گرد نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ سرفراز بگٹی نے سانحہ کوئٹہ کے بعد تربیتی مرکز کی خستہ حال دیواروں کی طرف توجہ دلانے پر نرالی منطق پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیوار بنانے کے لیے وزیراعلیٰ کی جیب میں پیسے نہیں پڑے ہوتے۔ جبکہ اس پولیس تربیتی مرکز کی سیکیورٹی کے لیے دیواروں کی مضبوطی کی درخواست گزشتہ ماہ آئی جی نے وزیراعلیٰ سے کی تھی اور اس وقت وزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری نے دوران تقریب ہی دیواریں تعمیر کرنے کی منظوری کا اعلان کیا تھا لیکن ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ اگر یہ دیواریں پختہ ہوتی تو شاید تربیتی مرکز میں بھی اتنی بڑی دہشتگردی اتنی آسان نہ ہوتی۔
عالمی برادری نے دہشت گردوں کی جانب سے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے 61افراد کے جاں بحق ہونے پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ نواز شریف اور انکی کابینہ کے ارکان کے حواسوں پراس وقت عمران خان کے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنےکا پروگرام کا چھایا ہوا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی کابینہ کے ارکان بغیر یہ سوچے کہ کس وقت کیا بولنا چاہیے وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں تو عمران خان کے خلاف بولتے ہیں۔
اس کی ایک مثال تو وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا وہ ٹوئٹ ہے جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ‘‘بھارت نے لائن آف کنٹرول پر حملہ کیا اور کوئٹہ و پشاور میں افغانستان سے حملے کیے گئے جبکہ عمران خان اب اسلام آباد پر حملہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں، کیا یہ صرف حادثاتی روابط ہیں’’۔عمران خان نے شایدخواجہ آصف کو تو کوئی جواب نہیں دیا البتہ انکے رہنما نواز شریف کےلیے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ‘‘نواز شریف ملک کےلیے سیکیورٹی رسک بن گئے ہیں’’۔ اس کے علاوہ چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول زرداری نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی ٹوئٹ پر بہت ہی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ایسے موقع پر سیاست کرنا شرمناک ہے اس لیے اپنا ٹوئٹ اکاؤنٹ،اپنی وزارت،اپنی حکومت سب ڈیلیٹ کردیں’’۔
Nisar Ali Khan
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نے کوئٹہ کے تربیتی مرکز میں ہونے والی دہشتگردی کے بارئے کہا کہ لوگ روز جنازے اٹھا کر تنگ آگئے ہیں۔ عوام میں مایوسی ہے، ناقص سکیورٹی کے ذمہ داروں کو برطرف کر دینا چاہئے، صوبائی حکومت سے اس حوالے سے پوچھوں گا۔ چوہدری نثار دہشتگردوں کے ہر حملے کے بعد پوری پاکستانی قوم پر اپنا اور اپنی حکومت کاایک احسان ضرور دہراتے ہیں کہ ‘‘ملک میں پہلے روزانہ 5 یا 7دھماکے ہوتے تھے لیکن اب 5 یا 7 ہفتوں کے بعد کوئی دھماکہ ہوتا ہے’’۔اگلی مرتبہ چوہدری نثار کواپنے احسان کو بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہنا چاہیے کہ گذشتہ مرتبہ آٹھ اگست2016 کو کوئٹہ کے سول اسپتال میں خود کش بم حملے میں 70 افراد جاں بحق اور120سے زائد زخمی ہوئے تھے، جبکہ اس تازہ حملے میں جو 24 اکتوبرکی رات سریاب روڈ پر واقع پولیس تربیتی مرکز میں تین مسلح دہشت گردوں نے کیا تھا اس میں صرف 61 اہلکار جاں بحق ہوئے اور100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں جو زیادہ تر پولیس ٹرینی تھے۔اس طرح دیکھا جائے تو جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے جو ہماری حکومت کا کارنامہ ہے۔
دہشتگرد ذمہ داروں کی لاپرواہی اور غیرذمہ داری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری کے مطابق کوئٹہ کئی روز سے ہائی الرٹ پر تھا کیونکہ بعض خفیہ ایجنسیوں نے وارننگ دی تھی کہ شہر میں کچھ دہشتگرد داخل ہوچکے ہیں جن میں خود کش بمبار بھی شامل ہیں، اس کے باوجود اتنا بڑا سانحہ ہوجانا عجیب سا لگتا ہے۔ اپنی غیرذمہ داری کا اقرار کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ تربیتی مرکز کو سیکیورٹی دینا ہماری ذمہ داری تھی، دہشتگرد حملے کی دھمکی موصول ہونے کے باوجود تربیتی مرکز کو سیکیورٹی نہ دے سکے جس کا کوئی نہ کوئی ذمہ دار ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کا نشانہ بننے والے پولیس تربیتی مرکزمیں سیکیورٹی کی صورتحال مثالی نہیں تھی، تربیتی مرکزکی سکیورٹی کےانتظامات پرخصوصی توجہ نہیں دی گئی تھی کیوں کہ موجود خطرات کے پیش نظر سیکیورٹی انہتائی سخت اور غیرمعمولی ہونی چاہئے۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے، انہیں سکیورٹی انتظامات پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ دہشت گرد خواہ کوئی بھی ہوں، داعش، طالبان، کالعدم تنظیمیں یا ’را‘، لیکن ہر دہشتگردی کو روکنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر آتی ہے جو انہیں پوری کرنی چاہیے کیونکہ دہشتگردی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔