تحریر : عقیل احمد خان لودھی یہ مشرف کے دور آمریت کا زمانہ ہے ہم ٹین ایج میں تھے، ابھی ہم نے حکومتی معاملات اور سیاست کو نیانیا سمجھنا شروع کیا تھا کہ نائن الیون 2001 کا واقعہ پیش آگیا یوں تو ٹیلی ویژن چینلز پر دکھائی جانے والی کاروائی پر جہازوں کے ٹکرانے کے واقعہ کے نتیجہ میں بلند وبالا عمارتوں کے زمین بوس ہونے کا ہم مطلب ہمیں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے اور ٹین ایج میں ہی ہم یہ بات سمجھنے پر قادر ہو چکے تھے کہ بہر حال اس کا خمیازہ مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کو ضرور بھگتنا ہے اور وہی کچھ ہوا چند ہی لمحوں میں قاعدہ القاعدہ کا واویلا مچنا شروع ہو گیا۔ ہزاروں میل دور سے میڈیا کے ذریعے القاعدہ کی بازگشت جو ہمارے پیارے وطن کے میڈیا کو سنائی دی تو انہوں نے بغیر کسی تصدیق تحقیق کے القاعدہ کا قاعدہ پڑھنا شروع کر دیا۔ قاعدہ القاعدہ سے طالبان اور دیگر کئی اصطلاحیں سامنے آتی رہیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ افغانستان، عراق اوریکے بعد دیگرے مسلمان ممالک کی شامت آتی گئی اور بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے۔ ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے کے مصداق۔۔۔ امریکہ اور اس کے حواریوں(اتحادیوں) کی طرف سے ہر شب وروز ایک سے بڑھ کر ایک تماشہ سامنے آتا رہا ۔ تھوک کے حساب سے انسانی جانوں پر گولہ بارود برسایا گیا کہا جاسکتا ہے کہ موت کی بھٹی نہیں بھٹا سلگایا گیا اور وافر مقدار میں انسانی جانوں کو اس کا ایندھن بنایا گیا۔
رفتہ رفتہ اس دہشت گردی، طالبان ، القاعدہ کی بازگشت پاکستانی علاقوں میں سنائی دینے لگی اور معلوم ہوا کہ قبائلی علاقہ جات، شمالی وزیرستان وغیرہ تک بھی طالبان کی رسائی ہے اورپھر پاکستان میں ہر روز بم دھماکوں کاسلسلہ شروع ہوگیا ہر خونی واقعہ کے بعد فوراََ میڈیا میں ذمہ داری قبول کرنے کے بیانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ ادھردھماکہ ہوتا انسانی جانوں کے پرخچے اڑتے ادھر مرنے والے معصوم شہریوں کے لواحقین تک خبر پہنچنے سے پہلے واقعہ کی قبولیت کی ذمہ داری کے بیانات میڈیا میں نشر ہونا شروع ہوجاتے ۔قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایجنسیاں حرکت میں آتیں اور بتایا یہ جاتا کہ واقعہ کے بعد سرچ آپریشن شروع کردیا گیا جس کے نتیجہ میں بیسیوں مشکوک افراد کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر ٹی وی سکرین پر چند افراد جن کے چہرے ڈھانپے ہوتے تھے انہیں دکھا کر معاملہ ایک طرح سے گول کردیا جاتا۔ مشرف دورحکومت میں تھوک کے حساب سے انسانوں کو دہشت گردی کے الزام میں غیروں کے سپرد کیا گیا اور مبینہ طور پر کامیاب کاروائیوں کے اخراجات کے طور پر بیرونی دنیا سے پاکستانی حکومت کی ڈالروں میں کافی مدد کی جاتی رہی۔ اور ہرواردات کے بعد خود کش حملہ آور کا سر ملنے اورمزید تحقیقات کے عمل جاری رکھنے کی خبر کیساتھ ایک طرح سے واقعہ کا مکو ٹھپ کردیا جاتا رہا۔
ٹین ایج کے دور میں بھی ہمارے ذہنوں میں جو سوالات گردش کرتے تھے آج بھی وہی سوالات تشنہ ہیں اور کوئی بھی ادارہ یا شخصیت ان سوالوں کے جوابات سے ہمیں نواز دے تو شاید ہماری کوئی ذہنی تسلی ہو جائے۔ نمبر١۔ دنیا کو جن گروپوں سے خطرات ہیں ان تمام تر کا تعلق مسلم ممالک سے ہی کیوں ہے؟ نمبر٢۔دیکھا یہ گیا ہے کہ اس نام نہاد قاعدہ القاعدہ دہشت گردی کے بعد زیادہ تر نقصان مسلمانوں اور مسلم ممالک کا ہی ہوا ہے؟۔جب یہی گروپس مسلمان ممالک اور نہتے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کو ہی موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں تو پھر بھی مسلمان ملکوں کی عوام اور حکومتوں کو ملیا میٹ کرنے کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دھمکیوں کا مقصد کیا ہے؟ نمبر٣۔حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی جو ویڈیوز ، آڈیوز میڈیا تک فوری رسائی حاصل کرتی ہیں تو کس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے آتی ہیں اور ان کی منازل کا آج تک کھوج لگانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی نمبر٤۔ ان دہشت گرد گروپس کی سرپرستی کون کر رہا ہے؟ ان کی ذریعہ آمدن کیا ہے اور ان کی مذموم کاروائیوں کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ نمبر ٥۔ جو جدیداسلحہ میڈیا پر ان گروپس کی ملکیت میں دکھایا جاتا ہے ظاہری سی بات ہے وہ چھوٹی سطح پر تیار ہونے والا نہیں۔ اس اسلحہ اور گولہ بارود کی مینوفیکچرنگ کہاں ہوتی ہے؟ اور تمام تر ریاستوں میں جہاں حکومتوں کا وجود ہے ،حکومتوں کی موجودگی میں ان اسلحہ بردار گروپس کی رسائی کس طرح مینو فیکچرنگ کمپنیز تک ہوتی ہے؟۔
Terrorism
نمبر٦۔ مختلف علاقوں میں ان کی آزاد نقل وحرکت بھی نہ ہو پھر بھی وسیع پیمانے پر گولہ بارود کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کیسے ہو جاتی ہے؟ نمبر٧۔سیکیورٹی کی مدات میں اربوں روپے مختص ہونے کے باوجود ان اداروں کی کارکردگی کیا ہے ؟ جو چند سو افراد پر مشتمل گروپس پر ہی قابو نہیں پا سکتے۔ نمبر٨۔خود کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرلینے والے ،بڑے بڑے دعوے کرنے والے گوگل ارتھ جیسے میپ ڈیزائن کرلینے والوں سے یہ شدت پسند گروہ اور ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں کیسے ڈھکی چھپی رہ سکتی ہیں ؟ نمبر٩۔دہشت گردوںکا جو طرز زندگی ان ویڈیوز میں دکھایا جاتا ہے وہ بظاہر نماز پڑھتے ہوئے، باریش افراد پر مشتمل اور اسلامی گفتگو پر مبنی دکھایا جاتا ہے جس سے ظاہر یہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ گروپس انسانیت کے قتل عام کے قبیح افعال کو جہاد کے نام سے منسوب کررہے ہیں اور بظاہر یہ لوگ اسلامی تعلیمات کے نتیجہ میں ایسا کررہے ہیں حالانکہ اسلام کسی بھی بے گناہ کے قتل کو انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے اور قاتل کیلئے بڑی سزا مقرر کرتا ہے۔جب ان نام نہاد جہادی طالبان کو اسلام سے بھی لگائو ہو اور وہ یہ بھی جانتے ہوں کہ اسلام کسی بے گناہ کے قتل کی اجازت نہیں دیتا تو پھر یہ کاروائیاں کیوں؟ ہمیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر یہ جہادی کس کو خوش کرنے کیلئے انسانیت کا قتل عام کررہے ہیں !!! آج ہم2014ء کے گنتی کے آخری ایام میں ہیں اور ٹین ایج کے دائرہ اثر سے باہر آئے بھی ہمیں کئی برس بیت گئے ہیں۔ مگر آج بھی دہشت گردی کی کوئی واردات ہوتی ہے تو اس میں مسلمانوں کا ہی قتل عام ہوتا ہے مسلمان ہی مارے جاتے ہیں ،انہی پر الزام لگتا ہے اور یہی واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں دہشت گردی، قتل عام کایہ سلسلہ رک نہیں سکا۔ حالانکہ وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس وقت مقدس جمہوریت اپنے بھرپور فوائدوثمرات سے پاکستانی قوم کو نواز رہی ہے مگر دہشت گردی کا قبیح عمل نہ رکا ہے نہ تھما ہے کبھی کہیں سے بڑے خونی حملہ کی خبر آتی ہے تو کبھی کسی بم دھماکے کے واقعہ کے نتیجہ میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں کسی ماں کا بیٹا دنیا سے چلا جاتا ہے تو کہیں ماں خود ،کہیں باپ اپنی اولاد کو یتیم کرجاتا ہے تو کہیں کسی بھائی کی موت بہنوں پر بجلی بن کرگرتی ہے خاندانوں کے خاندان ان واقعات کے نتیجہ میں برباد ہورہے ہیں مگر کیا ہے کہ ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے کی خبروں کا تسلسل ٹوٹا نہیں خبر یہ نہیں آتی کہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے بے نقاب ہوگئے ہیں،انسانی جانوں کے قاتل اپنے بہیمانہ طرز عمل پر شرمندہ ہیں ۔متاثرہ خاندانوں کے دکھ درد کو یہ لوگ کیا جانیں۔
ابھی پچھلے سانحوں کا غم ہلکا نہیں ہوا کہ چند روز قبل سانحہ واہگہ بارڈر وقوع پذیر ہوا اور کئی گھروں صف ماتم بچھا کر مرنے والوں کیلئے سسکیوں کی لمبی داستانیں چھوڑ گیا اور پھر وہی ہوا کہ چند ہی منٹوں میں ذمہ داری قبول کرنے والے کئی گروہ سامنے آنے لگے۔جس کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ایسے واقعات پر قابو پانایاان کے محرکات کا کھوج لگانا تو شاید ممکن نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ذمہ داروں کی تعداد میں اضافہ سے ہم مزید غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔دنیا کے امن کے نام نہاد علمبرداروں اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے نئی نام نہاد جہادی تنظیموں کے نام سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن میںسے ایک نام ” داعش ” بھی ہے سوچتے یہ ہیں کہ کیا پہلی دہشت گرد تنظیموںنے ہمارا جینا تھوڑا حرام کررکھا ہے جو نئی تنظیموں کی ضرورت پیش آگئی ۔ موجودہ حالات میں ہم صرف یہی سوچ رہے ہیں کہ دنیا کے امن کی تباہی کی ذمہ دار چند ریاستیں اور ان کے مقاصد ہیںدنیا میں امن کے نام نہاد علمبرداروں اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے نئی نام نہاد جہادی تنظیموں کے نام سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن میںسے ایک نام ” داعش ” بھی ہے۔ کیا پہلی دہشت گرد تنظیموںنے ہمارا جینا تھوڑا حرام کررکھا ہے جو نئی تنظیموں کی ضرورت پیش آگئی ؟ موجودہ حالات کے تناظر میں اس وقت ہمارے ذہنوں پر صرف یہی سوچ حاوی ہورہی ہء کہ دنیا کے امن کی تباہی کی ذمہ دار چند ریاستیں اور ان کے مقاصد ہیںجو تمام تر وسائل کے استعمال کے بعد بھی، دہشت گردوں کو مارنے کے نام پراپنے ایجنڈوں کوپروان چڑھاتی ہیں۔امن کے یہ نام نہاد علمبرداراپنی دیگر پالیسیوں کے علاوہ ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہوں کے قتل عام (دہشت گردی)کے بعد بھی چند افراد اور گروہوں پر قابو پانے میں ناکام ہیں ورنہ مٹھی بھر عناصر پر قابو پانا کوئی مشکل کام نہیں۔ان حالات میں یہی واضح ہوتا ہے کہ ہم کرائے کی دہشت گردی پال رہے ہیں اس دو طرفہ دہشت گردی نے ہمارے ملک میں ترقی کے سارے عمل کو جمود سے دوچار کررکھا ہے دونوں اطراف سے ہمارے ساتھ دہشت گردی ہورہی ہے۔اس طرح ہمیں اصل دہشت گردی کو سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کہ کس دہشت گردی کو پالا جائے۔؟
نمبر10۔ دہشت گردوں کے نام پر مسلم ممالک پر چڑھ دوڑنے والوں اور دہشت گردوں میں کیا فرق رہا اور کون اپنے مقاصد میں کتنا کامیاب ہوا!!!! حقیقت یہ ہے کہ ان دہشت گردوں اور ان کے نام نہاد دشمنوں کا ٹارگٹ عام شہری اور مسلمان ہیں ایسے حالات میں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس طرح کی دہشت گردی کا ساتھ دینا ہے اور کس سے نجات حاصل کرنی ہے! حقیقت یہ ہے کہ ہمیںاپنی راہیں خود متعین کرنا ہوں گی، دہشت گردوں کے خاتمہ کیلئے اپنی سیکیورٹی فورسزاور افواج کا ساتھ دینا ہوگا اور حکومتوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر ملک میں آنے والی غیر ملکی ایجنسیز اور ان کے معاونین پر کڑی نظر رکھی جائے غیر ملکی ڈکٹیشنوں سے مکمل طور پر نجات حاصل کی جائے اور نفرتیں پھیلانے والے عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔ ملک میں امن وامان کا قیام برقرار رکھنے کا واحد یہی حل ہے۔