تحریر : سید انور محمود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں لاقانونیت کا راج ہے۔ مجرم اور دہشتگردوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ جب کوئی بڑا دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو حکمرانوں اور آرمی چیف کی طرف سے خانہ پوری کے طور پراپنے گذشتہ بیانات کو دہرادیا جاتا ہے۔ اپنے دوسرئے مسائل کے ساتھ عوام آئے دن دہشتگردی کے عذاب سے بھی گذر رہے ہیں۔ چھوٹے بڑئے واقعات کا تسلسل جاری ہے۔اتوار 12 فروری کی شام کراچی میں فائیو اسٹار چورنگی کے قریب ایک پولیس موبائل پر کریکر سےحملہ کیا گیا، اس واقعے کی کوریج کےلیے سماءٹی وی کی ایک ڈی ایس این جی روانہ کی گئی، لیکن جائے حادثے پر پہنچنے سے پہلے ہی موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے پیچھے کی جانب سے فائرنگ کی، جس سے سماءٹی وی کےتیمور عباس نامی اسسٹنٹ ہلاک ہوگے۔پیر 13 فروری کوکوئٹہ کے سریاب فلائی اوور کے قریب پولیس کو مشکوک بیگ کی موجودگی کی اطلاع ملی، جس پر علاقے کو گھیرے میں لے کر بم ڈسپوزل اسکوارڈ کا عملہ بم کو ناکارہ بنا رہا تھا کہ دھماکہ ہوگیا۔ دھماکے میں بم ڈسپوزل اسکوارڈ کے دو اہلکار جاں بحق، جبکہ دو پولیس اہلکاروں سمیت پندرہ افراد زخمی ہوگےتھے۔ کراچی اور کوئٹہ کےیہ دونوں واقعات اتنے بڑئے نہیں تھے جسکا حکمران نوٹس لیتے۔ بس قانونی خانہ پوری کرلی گئی ہوگی، مرنے والوں کے غم میں رونے کےلیے ان کے گھر والے موجود ہیں۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے 7فروری کو سیکیورٹی الرٹ جاری کیا گیا تھا جس میں لاہور میں دہشت گرد کارروائی کاخدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے لاہورمیں ممکنہ دہشت گردی کاخدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نامعلوم دہشت گرد گروپ لاہور میں حملہ کرسکتا ہے۔ریڈ الرٹ میں کہا گیا تھا کہ لاہور کی تمام اہم عمارتوں، مقامات، سکولوں اور ہسپتالوں کی سیکیورٹی بڑھائی جائے۔ پیر 13 فروری کی شام کو لاہور میں پنجاب اسمبلی کے قریب مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے مقام پر ڈرگ ایکٹ میں ترمیم کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین جمع تھے۔ مظاہرین کو پولیس کے اعلیٰ افسران مستقل متنبہ کررہے تھے کہ کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوسکتا ہے لہذا سڑک کو خالی کردیا جائے۔ابھی اعلیٰ افسران سےمظاہرین کی بات چیت چل رہی تھی کہ ایک خود کش بمبار نے اپنے آپ کودھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے میں سات پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور84سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں لاہور ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد محمود گوندل بھی شامل ہیں۔ ڈی آئی جی کے گن مین نے حملہ آور کو روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ مال روڈ پر چیئرنگ کراس وہ جگہ ہے جہاں بہت زیادہ رش رہتا ہے لیکن لاہور میں جس کو بھی مظاہرہ کرنا ہوتا ہے وہ منہ اٹھاکر سیدھا یہاں آجاتاہے۔ ایک خبر کے مطابق جنوری 2017 میں 17 دن اس مقام پر مظاہرئے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اس علاقے کا کاروبار ٹھپ پڑا رہا۔
پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے حملہ آور کی شناخت ہو گئی ہے، اس نے پیدل حملہ کیا تھا۔ رانا ثنا اللہ کے مطابق حملہ آور کا ہدف پولیس اہلکار تھے، ان کا کہنا تھاکہ لاہور میں پیر کی شب ہونے والے خودکش حملے میں ایک سے زیادہ افراد ملوث تھے۔ وزیر قانون نے کہا کہ حملے کے وقت خودکش حملہ آور کا ایک ساتھی بھی وہاں موجود تھا۔ وزیرقانون نے یہ بھی کہا کہ لاہور کے گنجان علاقے چیئرنگ کراس پر اگر ڈرگ ڈیلرز ایسوسی ایشن کا احتجاج نہ ہوتا تو یہ دہشتگردانہ حملہ بھی نہ ہوتا۔ رانا ثنا اللہ کے اس بیان کو کافی افراد نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ رانا ثنا اللہ جو نہایت چرب زبان ہیں اور شہباز شریف کے ترجمان بھی ہیں ،یہ تو کہہ دیا کہ اگر احتجاج نہ ہورہا ہوتا تو دہشتگردی نہ ہوتی، لیکن رانا ثنا اللہ گذشتہ سال اقبال پارک میں ہونے والی دہشتگردی کو کیا کہینگے وہاں تو کوئی احتجاج نہیں ہورہاتھا، شاید رانا ثنا اللہ کو یہ کہتے ہوئے شرم آرہی ہو کہ ذمہ داران اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے۔
Taliban
چیئرنگ کراس کےدھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے منحرف دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کرلی ہے۔ایک نیوز چینل کے مطابق تحریک طالبان سے علیحدہ ہونے والا انتہا پسندوں کے دھڑے کالعد م جماعت الاحرار کے ترجمان نے لاہور دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ 27 مارچ 2016 کو عیسائیوں کے تہوار ایسٹر کے موقعے پر گلشن اقبال پارک کے دروازے پر ایک خودکش حملہ ہوا جس میں 74 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی، اس دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت احرار نے قبول کی تھی۔دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کےلیے ریاست کو اپنا دوہرا معیار ختم کرنا پڑے گا۔ ایک تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ’’جب تک ہم اچھے اور برے طالبان میں تمیز ختم نہیں کریں گے، دہشت گردی ختم نہیں ہو گی۔کالعدم تنظیموں کے ارکان آج بھی پنجاب اور بلوچستان میں کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ ہم اپنی سیاسی مجبوریوں کے تحت ان کو اچھا بنا کر پیش کرتے ہیں‘‘۔ ان دہشتگردوں کو قومی دھارے میں لانے کی بات بھی کی جاتی ہے، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو آئین پاکستان پر یقین نہیں رکھتے۔یہ انسانیت کے کھلے دشمن ہیں ، یہ صرف اور صرف درندئے ہیں، یہ انسانوں کو مارنے والے قصائی ہیں ، ان کا کوئی بھی گروہ ہو، چاہے وہ پنجابی طالبان ہوں، حقانی نیٹ ورک ہو یا دیگر دہشتگرد کالعدم تنظیمیں، ان کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جانی چاہیے۔ اگر حکمران ایسا نہیں کرتے تو بے گناہ عوام کے قتل ہوتے رہینگے اور یہ دہشتگردی اسی طرح جاری رہے گی، جس کی مکمل ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوگی۔
ہر دھماکے کے کچھ عرصے بعد لوگ اسے بھول جاتے ہیں صرف مرنے والوں کے گھر والے روتے رہتے ہیں، چاہے وہ پشاور کے بچے ہوں یا کوئٹہ کے وکیل ۔ لیکن ان واقعات میں ایک ایسا بھی واقعہ ہوتا ہےجو دوسروں کو بھی برسابرس یاد رہتا ہے۔ چیئرنگ کراس دھماکے میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا ہے، ’’تیس سالہ فاطمہ جمشید کا ایک ماہ بعد نکاح ہونا تھا اور وہ اپنے چھوٹے بھائی بلال جمشیدکے ساتھ اسی سلسلےمیں شاپنگ کرنےکےلئے مال روڈ گئی ہوئی تھی۔ اس نےاپنے چھوٹے بھائی کوجوتےخرید کردیئے،جب وہ اپنے گھرواپس جانے کیلئے روانہ ہوئی تو چیرنگ کراس پہنچتےہی دھماکاہو گیا۔فاطمہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی، جبکہ اس کا چھوٹا بھائی بلال شدید زخمی ہوگیا اور اب اسپتال میں زیرعلاج ہے، فاطمہ جو اگلے ماہ اپنے پیا کے گھر جانے والی تھی، وقت سے پہلے اپنی قبر میں پہنچ گئی۔ فاطمہ 4بہنوں اور 2بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ کل تک جس گھر میں فاطمہ کی شادی کی وجہ سے خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، آج وہاں آنسو اور ہچکیاں ہیں۔
ایک خاتون نے فیس بک پر سوال کیا کہ ’’انسان کی جان لیتے ہوئے حیا آتی ہے؟‘‘ کسی نے جواب دیا، ’’آپ کس کی بات کررہی ہیں، ان درندوں کی جو آئے دن لوگوں کے گھر اجاڑ رہے ہوتے ہیں یا پھران کی جو ہردہشتگردی کے بعد کہتے ہیں کہ ہم دہشتگردی کو ختم کردینگے، ان دونوں کو تو یہ ہی نہیں پتہ کہ حیا ہوتی کیا ہے۔ کیونکہ ایک کے لیےانسانی جان لینا اس کاکاروبارہے، جبکہ دوسرئے کو صرف اپنی جان پیاری ہے، یہ دونوں ہی انسانیت کے قصائی ہیں‘‘۔