تحریر : سید انور محمود پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جمعہ یکم جنوری 2016ء کو پوری قوم کو خوشخبری دیتے ہوئےکہا ہے کہ”اُنکو پورا یقین ہے 2016ء دہشت گردی کا آخری اور یکجہتی کا سال ہو گا، قوم کی حمایت سے دہشت گردوں، مجرموں اور کرپشن کا گٹھ جوڑ توڑدیں گے، جس کے باعث انصاف کی راہ ہموار اور پائیدار امن کی منزل حاصل ہوگی۔ جمعہ یکم جنوری کو ہی جنرل راحیل شریف نے مزید9 خطرناک دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کر دئیے۔ یہ 9 دہشت گرد پریڈ لین مسجد راولپنڈی ، آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر ملتان، قانون نافذ کرنے والے اداروں، لاہورمیں معصوم شہریوں کے اغوا اور قتل کی وارداتوںمیں ملوث تھے۔ ان دہشت گردوں کیخلاف فوجی عدالتوں میں سماعت ہوئی اور جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی گئی۔جنرل راحیل شریف اس سال 29 نومبر کو ریٹائر ہورہے ہیں اور اسی سال دہشت گردی کو بھی جڑ سے ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں ملک بھر میں دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا، اُن کی سربراہی میں آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا۔
سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے حوالے سے یہ بات کی جاتی رہی ہے اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے بھی کہا ہے کہ تمام تیاریاں مکمل ہونے کے باوجود جنرل کیانی نے وزیرستان میں آپریشن نہیں کیا، مگر جنرل راحیل شریف نے آنے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا اور پاکستان میں امن آیا، جنرل راحیل شریف نے مزید یہ بھی کہا کہ قوم کی حمایت سے دہشت گردی، جرائم اور کرپشن کا گٹھ جوڑ توڑیں گے اور انصاف و امن کی راہ ہموار کی جائے گی۔وزیراعظم نواز شریف کو اس سال جہاں بہت سارے اُمور دیکھنےہونگے وہاں موجودہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع یا ایسے نئے آرمی چیف کا انتخاب کرنا ہوگا جو دہشت گردی کیخلاف جنگ کو اسی طریقے سے جاری رکھے جس طرح سے جنرل راحیل شریف نے جاری رکھی ہوئی ہے۔
سال 2015ء جب شروع ہوا تو پوری قوم اداس تھی جسکی وجہ ملکی تاریخ میں 16دسمبر 2014ء کی وہ بدترین دہشت گردی تھی جس میں پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشت گردوں نے پاکستان میں ابتک ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ لوگوں کو شہید کردیا۔ 132طلباء کی شہادت یقیناًایک قومی المیے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس واقعہ نے پورئے ملک کو ہلاکر رکھ دیا اور پوری قوم بغیر کسی تفریق کے ماسوائے چند لوگوں کو چھوڑ کر متحد ہوگئی (چند لوگوں میں اسلام آباد کی لال مسجد کا سابق خطیب شقی القلب مولانا عبدالعزیز اور سابق امیر جماعت اسلامی منافق سید منور حسن شامل ہیں)۔ اسکے بعد طالبان کے بارئے میں پوری قوم کی ایک ہی رائے تھی کہ یہ دہشت گرد ہیں اور اُن کا اور اُنکی سوچ کا خاتمہ ضروری ہے۔ عسکری قیادت کی طرف سے آرمی پبلک اسکول کے واقعے کے بعد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے فیصلہ کن کارروائیوں کا عزم کیا گیا اور شدت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کاروائیاں تیز کر دی گئیں۔
Pakistan Terrorism
ان تمام کوششوں کے باوجود بھی دہشت گردوں کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں ہلاکت خیز حملے کیے جاتے رہے۔ حکومتی عہدیداران ان حملوں کو شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہائیوں سے جڑ پکڑتی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔ سال 2014ء کی نسبت اس سال صورتحال کافی بہتر ہوئی ہے۔ اس پورے سال مختلف دہشت گردی کی وارداتوں سے یہ تاثر ملا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں کی جا سکی ہیں۔قومی لائحہ عمل کے نتائج سامنے آئے ضرب عضب کی صورت میں بھی، کراچی کی صورتحال کی بہتری کی صورت میں بھی، بلوچستان میں جو قتل و غارت گری تھی اس معاملے میں بھی۔انتہا پسندی اب ویسی نہیں رہی لیکن یہ بہت مشکل مسائل ہیں یہ جو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کی لعنتیں ہیں یہ وقت کے ساتھ پنپتی رہی ہیں اور اسکو ختم ہونے میں لازمی وقت لگے گا۔ پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ صرف سال 2015ء میں طالبان کے خلاف جو لڑائی لڑی گئی وہ کبھی نہیں لڑی گئی، اس سے پہلےصرف مصلحتوں سے کام چلایا گیا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فارکنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیزکی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دہشت گردی کے واقعات میں56 فیصد کمی جبکہ دہشت گردی سے ہونے والی ہلاکتوں میں2014ء کی نسبت 48 فیصدکمی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاورکے بعد آپریشن ضرب عضب میں ملنے والی کامیابیوں اوردہشت گردوں کی بڑے پیمانے پرگرفتاریوں کی وجہ سے ملک میں امن وامان کی مجموعی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔گزشتہ سال ملک میں سلامتی کی مجموعی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی اورخیبر پختونخوا میں بھی دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی آئی۔ صرف پنجاب میں خودکش حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بلوچستان میں دہشت گردی اور ریاست مخالف حملوں کی تعداد زیادہ رہی۔ رپورٹ کے مطابق2015ء میں 706 دہشت گرد حملوں میں1325انسانی جانیں ضائع ہوئی جن میں619 شہری اور348سیکیورٹی اہلکار تھے۔گزشتہ برس325 دہشت گرد بھی مارے گئے۔گزشتہ سال دہشت گرد حملوں میں1464 افراد زخمی بھی ہوئے۔2015ء بلوچستان میں سب سے زیادہ 280 دہشت گرد حملوں میں 355 افراد جاں بحق اور335 زخمی ہوئے،بلوچستان میں ہونے والے یہ واقعات 2014ء میں ہونے والے واقعات کی نسبت 41 فیصد کم ہیں۔رپورٹ کے مطابق فاٹا میں170دہشت گرد حملوں میں396انسانی جانیں ضائع ہوئیں جو2014ء کی نسبت 55 فیصدکم ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 139دہشت گرد حملوں میں224 انسانی جانیں قربان ہوئیں۔2014ء کے مقابلے میں خیبر پختونخوا میں سلامتی کی صورتحال بہت بہتر ہوئی اوردہشت گرد حملے 70فیصد کم ہوگئے۔صوبہ سندھ میں بھی سلامتی کی صورتحال بہتر ہوئی اورگزشتہ سال یہاں89 دہشت گرد حملوں میں240 افراد جاں بحق ہوئے تاہم یہ تعداد 2014ء کی نسبت 64 فیصد کم ہے۔پنجاب میں باقی ملک کی نسبت خودکش حملوں کی تعدادبڑھ گئی تاہم دہشت گرد حملوں میں39 فیصدکمی ہوئی۔وفاقی دارالحکومت میں بھی پچھلے سال دواورگلگت بلتستان میں ایک دہشت گرد حملہ ہوا۔ جبکہ 18 دسمبر کو وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے سینٹ میں بتایاکہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھی گئی ہے، سرکاری اعداوشمار کے مطابق 1100 سے زائد واقعات ریکارڈ کئے گئے‘ ان واقعات میں تقریباً 650 مبینہ شدت پسند ہلاک ہوئے جبکہ 710 گرفتار ہوئے۔
Nisar Ali Khan
اگرچہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جاری قومی ایکشن پلان کے تحت حکومت ہزاروں مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا دعوی کرتی رہی ہے لیکن وزیر داخلہ کے بیان کے مطابق اس سال 710 دہشت گرد گرفتار کئے گئے۔ سب سے بڑی تعداد خیبر پختونخوا سے یعنی 301 ایک رہی۔دوسرے نمبر پر بلوچستان رہا جہاں سے 267 گرفتاریاں ہوئیں۔ فاٹا میں ہلاکتیں تو سب سے زیادہ رہیں لیکن گرفتاریاں محض 88 ہی ہوئیں۔ پنجاب سے حیران کن طور پر محض دو دہشت گردوں کی گرفتاری کی معلومات دی گئی ہیں۔ سندھ میں یہ تعداد 52 رہی۔ ان تمام اعداد و شمار کے باوجود 2015ء میں دہشت گرد ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں ، وہ ابھی تک جب چاہتے اور جہاں چاہتے پہنچ جاتے ہیں مثال کے طور پر ہمیں ایک افغان طالبان رہنما کا پتہ جب چلتا ہے جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ایک افغان طالبان رہنما نے بھی شوکت خانم اسپتال لاہور سے علاج کرایا تھا۔
طالبان لیڈر نے علاج کے بعد شکریہ کا خط لکھا تو مجھے اس بات کا پتا چلا۔ اسکا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ہمارئے خفیہ ادارئے سوئے ہوئے ہیں کہ اُنکو افغان طالبان رہنما کا پتہ ہی نہیں چلا، شوکت خانم اسپتال لاہور کی انتظامیہ سے بھی پوچھا جائے۔ سال 2015ء کے ختم ہونے سے صرف دو دن پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں منگل 29 دسمبر 2015ء کی صبح نادرا آفس کے باہر شناختی کارڈ بنوانے والوں کا رش تھا، جب ایک خود کش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل دفتر کے دروازے سے ٹکرا دی۔ خود کش حملے میں 26 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے، یہ ایک طرح سے دہشت گردوں کا پیغام تھا کہ ابھی وہ ختم نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستان میں داعش ہے یا نہیں اس پر اگلے مضمون میں بات ہوگی۔
ابھی پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوا ہے لیکن 2015ء ملک کےلیے ایک اچھا سال تھا، لازمی بات ہے کہ دس سال کی دہشت گردی ختم ہونے میں وقت لگےگا ۔ 2015ء میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔ توقع یہی ہے کہ 2016ء کا پاکستان بقول آرمی چیف جنرل راحیل شریف کہ “دہشت گردی کا آخری اور یکجہتی کا سال ہوگا”، جس کے باعث پائیدار امن کی منزل حاصل ہوگی، ہماری دلی خواہش بھی یہ ہی ہے کہ شہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف جب 29 نومبر2015ء کو اپنی ملازمت کی مدت ختم ہونے پر اپنے گھرجایں تو پاکستان دہشت گردی کی لعنت سےپاک ہوچکا ہو۔ پاکستان زندہ باد