تحریر : راجہ محمد اشفاق پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی شریک ہوئے، اجلاس کے دوران، جاری عسکری آپریشن میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ آپریشن کے نمایاں ثمرات حاصل ہوئے ہیں، اجلاس میں عہد کیا گیا کہ ملک کو ہر حالت میں امن کا گہوارہ بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردوں کا انفراسٹرکچر تباہ اور نیٹ ورک ٹوٹ چکے ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں کو ختم کریں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر قیمت پر منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کراچی آپریشن سے عوام خوش ہیں اور خوف کی فضا ختم ہو چکی ہے۔ آپریشن سے پہلے کراچی میں جرائم کی شرح انتہائی درجہ پر تھی اب ٹارگٹڈ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور قتل و غارت جیسی سنگین وارداتوں میں واضح کمی ہو چکی ہے۔ اجلاس میں پشاور میں سرکاری ملازمین کی بس پر دہشت گردوں کے حملے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
اس میں شک نہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک تباہ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ پہلے کی طرح وارداتیں کرنے میں تو کامیاب نہیں ہو پاتے، لیکن یہ سلسلہ ابھی کلی طور پر ختم نہیں ہو پایا، پشاور میں آرمی پبلک سکول، چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی، بڈھ بیر میں ائر فورس کیمپ اور اب پشاور میں سرکاری ملازمین کی بس پر ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں۔ دہشت گردوں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ کہیں نہ کہیں چھوٹی یا بڑی کارروائی کر گزرتے ہیں، چونکہ یہ جنگ انتہائی پیچیدہ بہت وسیع اور پہلو دار ہے اس لئے دہشت گردوں کی ایسی کارروائیاں حیران کن بھی نہیں ہیں۔ وہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے ایسا کرتے رہتے ہیں پھر انہوں نے افغانستان کے دشوار گزار علاقوں میں اپنے نیٹ ورک اور تربیتی مراکز بنا رکھے ہیں، پاکستان نے افغان حکومت کو ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لئے ثبوت بھی مہیا کئے ہیں لیکن شاید یہ علاقے افغان حکومت کے لئے قابلِ رسائی نہیں یا افغان نیشنل آرمی کے لوگ اس حد تک تربیت یافتہ نہیں کہ وہ ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیاں کر سکیں یا پھر یہ کام افغانستان کی ترجیحات میں نمایاں نہیں اس کی وجہ سے بھی دہشت گرد کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
Security Checking
حال ہی میں جو وارداتیں ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں ”دھوکہ دہی کا ہتھیار” (ڈاج) استعمال کرتے ہیں اور عام طور پر اس میں کامیاب رہتے ہیں اس کے جواب میں سیکیورٹی ڈیوٹی پر متعین پولیس اہلکاروں کو کامیابی اس لئے نہیں ہو پاتی کہ سیکیورٹی چیکنگ کے سائٹیفک تقاضے کماحقہ، پورے نہیں کئے جاتے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محض روٹین بن جاتی ہے، دہشت گرد جو وارداتیں اب کر رہے ہیں ان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنی واردات سے پہلے کئی دنوں تک ریکی کرتے ہیں۔ اس کے بعد منصوبہ بندی کرکے حملہ آور ہوتے ہیں۔ پشاور میں سرکاری ملازمین کی جس بس میں بم نصب کیا گیا تھا اسے اگر استعمال میں لانے سے پہلے احتیاط کے ساتھ چیک کیا جاتا تو نہ صرف بم کی نشاندہی ہو سکتی تھی بلکہ ممکنہ طور پر اس سے بچا بھی جا سکتا تھا، سرسری طور پر کسی مقام یا جگہ کی تلاشی اب کارآمد نہیں ہو سکتی۔
تمام بسوں کو باقاعدہ جدید ترین آلات سے چیک کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا طریقہ کار ملک بھر میں مروج کر دینا چاہیے۔ بلکہ ہمارے خیال میں تو جہاں کہیں بھی سیکیورٹی چیکنگ ہوتی ہے وہاں وہاں اس پورے نظام کو اچھی طرح ریویو کرکے سیکیورٹی ڈاکٹرائن از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔چونکہ دہشت گرد جدید تکنیک سے آراستہ ہیں اس لئے ان کا مقابلہ بھی اسی طرح کیا جا سکتا ہے۔ تلاشی اور سیکیورٹی کے روایتی پرانے طور طریقے ناکام ہو چکے ہیں اور اس کا بار بار تجربہ بھی ہو چکا ہے۔ پھر دہشت گردکسی جگہ ناگہانی طور پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور وقت ایسا منتخب کرتے ہیں جب لوگ بڑی حد تک آسودہ ہوتے ہیں مثلاً بڈھ ایئر بیس کیمپ پر صبح کے وقت حملہ کیا گیا جب نمازی قریبی مسجد میں نماز فجر ادا کررہے تھے۔دہشت گردوں کو جب کیمپ کے اندر سے مزاحمت ملی تو وہ فوری طور پر مسجد پر حملہ آور ہو گئے جہاں نمازی تمام تر صورتِ حال سے بے خبر سربسجود ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے، اس لئے ضرورت ہے کہ سیکیورٹی کے انتظامات میں نئے نظریات شامل کئے جائیں۔
Security Check Posts
عام طور پر سیکیورٹی چیک پوسٹیں جن جگہوں پر قائم ہوتی ہیں ان پر حملہ کرنا آسان ہوتا ہے۔ سرراہ قائم سیکیورٹی پوسٹوں کو بھی از سر نو ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت جو سیکیورٹی چیک پوسٹیں ملک بھر میں جگہ جگہ قائم ہیں وہ ایک معمولی حملے سے ہی تباہ ہو جاتی ہیں اور ان کے اندر بیٹھا ہوا عملہ فوری طور پر متاثر ہو جاتا ہے۔ ماہرین کے مشورے کے بعد ان پوسٹوں کو بم پروف یا کم از کم بلٹ پروف ضرور بنایا جانا چاہیے۔ ایک اور پہلو جس کی جانب توجہ دلانے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اکثر ایسا ہو چکا ہے کہ کسی سیکیورٹی چیک پوسٹ پر متعلقہ عملہ کسی خودکش حملہ آور کی چیکنگ شروع کرنے لگا تو اس نے خود کو اْڑا لیا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عملہ تو مستعد تھا، اپنی ڈیوٹی بھی ہوشیاری سے ادا کر رہا تھا لیکن جب حملہ آور نے اچانک خود کو اْڑا لیا تو عملے کی تمام تر مستعدی بے نتیجہ رہی اور وہ خود بھی شکار بن گیا اور قرب و جوارکے لوگ بھی متاثر ہو گئے۔اس سے بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سیکیورٹی چیک پوسٹوں کو ری ڈیزائن کرنے کی ضرورت ہے جہاں اہل کار محفوظ ہوں اور میٹل ڈی ٹیکٹر کے ذریعے چیکنگ کی جائے۔ اس مقصد کے لئے بعض دوسرے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔جہاں اِکا دکا وارداتوں کے بعد اب دہشت گردوں کو کوئی کامیابی نہیں مِلتی۔
گزشتہ روز کراچی میں رینجرز کی چیک پوسٹ کے قریب کریکر بم چلائے گئے،جن میں تین اہل کاروں سمیت چار افراد زخمی ہوئے دو تین ہفتوں میں یہ کراچی کی رینجرز پوسٹوں پر اپنی نوعیت کا تیسرا حملہ تھا خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن کریکر یا بم پھینکنے والوں کا کوئی مقصد تو ہوگا اور وہ کوئی پیغام تو دینا چاہتے ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے یہ وارداتیں محض دل لگی کے لئے کر ڈالی ہوں کراچی میں جرائم بے شک کم ہوئے ہیں،بھتہ خوری کی وارداتوں میں بھی کمی آئی ہے۔ اغوا برائے تاوان کی شرح بھی کم ہوئی ہے لیکن عین ممکن ہے دہشت گرد اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ کر کوئی نئی پلاننگ کر رہے ہوں اور کبھی کبھار چیک پوسٹوں پر حملے کرکے درجہ حرارت ناپ رہے ہوں اس لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ دہشت گردوں کے بارے میں مطمئن ہو کر بیٹھ جایا جائے۔
دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہونے تک نہ تو ایسا کوئی اطمینان حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ان سے غافل ہو کر بیٹھا جا سکتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پاکستان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے ایک ہی پچ پر ہیں ۔وزیراعظم پاکستان نے ملک کے کونے کونے کو درندہ صفت دہشت گردوں سے پاک کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔موجودہ حکومت سے قبل کسی بھی ماضی کی حکومت نے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔جس کا خمیازہ آج پوری قوم کو بھگتا پڑ رہا ہے۔ ہماری دعا ہے اﷲ تعالیٰ اس عظیم مشن میں میاں نواز شریف کو کامیاب کرے ا۔آمین