تحریر : محمد اشفاق راجا پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو پْرامن اور محفوظ پاکستان دینے کا وعدہ ہر صورت پورا کریں گے، مْلک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں، انتہا پسندی کا خاتمہ تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے، تحمل اور برداشت پر مبنی پاکستانی معاشرے کو پروان چڑھانا ہمارا مشن ہے، جس کے لئے حکومت نے ٹھوس اقدامات کئے ہیں، دہشت گرد نہ صرف پاکستان بلکہ اقوامِ عالم کے مشترکہ دشمن ہیں، پْرامن معاشرے کی تشکیل کے لئے اخوت، بھائی چارے اور تحمل و برداشت کے جذبات کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پنجاب میں تعلیمی اداروں کے نصاب میں تحمل، برداشت اور روا داری کے عنوانات پر مبنی مضامین متعارف کرائے گئے ہیں، وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اِن خیالات کا اظہار وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف سے ملاقات کے دوران اْن سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کیا۔اسلام کی تعلیمات پر اگر اْن کی روح کے مطابق عمل کیا جائے تو مسلمانوں کا ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جو نہ صرف باہمی طور پر روا دار ہو، بلکہ بطور مجموعی غیر مسلمانوں کے لئے بھی قابلِ تقلید نمونہ ہو، اسلام نے مسلمانوں کے معاشرے میں غیر مسلموں کے حقوق بھی پوری وضاحت کے ساتھ بیان کر دیئے ہیں۔
Islamic Teachings
حتیٰ کہ برسرِ جنگ اور متحارب فریقوں کے ساتھ لڑنے کا بھی ایک ضابطہ? اخلاق مرتب کیا گیا ہے، قرونِ اولیٰ کے مسلمان جب غیر مسلموں پر جنگوں میں قابو پاتے اور اْنہیں مغلوب کرتے تھے تو اْن کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے تھے، عین حالتِ جنگ میں بھی دشمنوں کے انسانی حقوق اْن کے پیشِ نظر رہتے تھے، مسلمانوں کی غیر مسلموں سے جنگ اور ناراضی بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوتی ہے اور اْن کی صلح جوئی بھی اسلامی تعلیمات کے تابع ہوتی ہے، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے اب نہ صرف باہمی طور پر روا دار نہیں رہے اور مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر باہم دست و گریباں رہتے ہیں، بلکہ ایسے گروہ بھی پیدا ہو گئے ہیں،جو اسلام کی من مانی تاویلات کر کے کشت و خون کا جواز بھی پیدا کرتے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔
عدمِ روا داری کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کا معاشرہ جو اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے جنت نظیر بن سکتا ہے، ان سنہری اصولوں کو ترک کر کے جہنم زار بنا ہْوا ہے۔ دہشت گردی نے انسانوں کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے، تو لوگوں کے انفرادی افعال بھی ایسے ہو گئے ہیں، جنہوں نے انسانوں کی ذاتی زندگیوں کو بھی اجیرن بنا رکھا ہے، والدین معصوم اولاد تک کو قتل کر دیتے ہیں، نوجوان اولاد جائیداد کے چکر میں بوڑھے والدین کو مارنے سے گریز نہیں کرتی، بھائی بہنوں کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اْتار دیتے ہیں۔ چند سال کی معصوم بچیوں تک کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
خودکشی کی وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ایسی متعدد اطلاعات منظرِ عام پر آچکی ہیں کہ کالج یا یونیورسٹی کی طالبہ نے امتحان کا داخلہ نہ بھیجنے پر خود کشی کر لی، سکول کی فیس ادا نہ ہونے پر خود کو ہلاک کر لیا، امتحان میں فیل ہونے پر یا والدین کی معمولی ڈانٹ پر زندگی کا خاتمہ کر لیا یا پھر عیدین کے موقع پر نئے کپڑے نہ ملنے پر خود کشی کر لی۔دہشت گردی سے لے کر انفرادی قتل و غارت تک پھیلے ہوئے یہ سلسلے معاشرتی بے چینی پر دلالت کرتے ہیں، جس کی وجہ سے چین اور سکون عنقا ہو گئے ہیں اور ایک اضطراب مسلسل کی کیفیت معاشرے میں رَچ بس گئی ہے۔
تحمل اور عدمِ برداشت کا جو رویہ ہمارے معاشرے میں فروغ پذیر ہے اس کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں، لیکن ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نئی نسل کو صحیح خطوط پر تربیت دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے، جو بچے مساجد میں جاتے ہیں انہیں تو ہر لحاظ سے بْرد بار اور متحمل ہونا چاہئے، لیکن اب تو مساجد میں بھی قتل کی وارداتیں ہو جاتی ہیں، دہشت گردی کی بدولت مساجد عرصے سے غیر محفوظ ہو گئی ہیں اور نماز کی ادائیگی کے اوقات میں باہر پولیس متعین کرنی پڑتی ہے، کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسجد کے اندر نمازی باہم اْلجھ پڑتے ہیں اور اس کیفیت کو اس حد تک بڑھا دیا جاتا ہے کہ قتل و غارت کی نوبت آ جاتی ہے، نمازی امام مسجد سے اْلجھ پڑتے ہیں اور امام مسجد مقتدیوں کو روا داری کا درس دینے کی بجائے بسا اوقات ان میں منافرت بڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔
Terrorism in Pakistan
وزیراعلیٰ شہباز شریف نے آئندہ نسلوں کو پْرامن اور محفوظ پاکستان دینے کا جو وعدہ کیا ہے یہ بہت ہی نیک اور اچھا جذبہ ہے کہ وہ نئی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ اور تحمل و برداشت کے اوصاف سے متصف کرنے کا عزم رکھتے ہیں اسے سراہا جانا چاہئے۔ پنجاب کے حکمران کے طور پر انہوں نے بہت سے ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جن کے نتیجے میں بہتری کے آثار تو پائے جاتے ہیں، لیکن ابھی اِس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، مساجد میں جمعہ کے خطبات میں فروعی باتوں کی بجائے اسلام کے سنہری اصول نوجوان نسل کے سامنے رکھے جائیں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
تزئین معاشرہ اور حسنِ معاشرت کے لئے اسلامی تعلیمات مشعلِ راہ کا کام دے سکتی ہیں، مساجد میں اس سلسلے میں جمعہ کا خطبہ مطبوعہ صورت میں آئمہ مساجد کو مہیا کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس کی مختلف حلقوں کی جانب سے مخالفت ہوتی ہے، لیکن اگر اختلافِ عقائد کی بجائے اسلامی تعلیمات کی آگاہی اس انداز میں دی جائے کہ نوجوان نسل کے لوگ اپنی نمازوں کو خشوع و خضوع سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تحمل کا جذبہ بھی پیدا کریں اور اگر انہیں کسی کی بات سے اختلاف ہو تو اس پر طیش میں آنے کی بجائے نرم خوئی اور محبت سے سمجھانے کا رویہ اختیار کریں تو اس کے مثبت اثرات مجموعی طور پر معاشرے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
ناقصِ فہم دین کے نتیجے میں جو افراد اور طبقات قتل و غارت اور دہشت گردی پر اْتر آتے ہیں اْس نے پاکستانی معاشرے اور افراد کی زندگیوں میں زہر گھول دیا ہے۔ وعظ و نصیحت اور تلقین و تبلیغ کے ذریعے لوگوں کی زندگیوں کو بدلا جا سکتا ہے، نصابِ تعلیم میں اس نقطہ نظر سے جو تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ بھی لائقِ تحسین ہیں۔وزیراعلیٰ شہباز شریف کا عزم قابلِ ستائش ہے اور اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں میں اْن کا ساتھ دیا جانا چاہئے، جو طبقات معاشرتی ناہمواریوں اور معاشرے کی بے چینی کو اپنے سیاسی یا ذاتی مقاصد کے لئے فروغ دینے کی روش پر گامزن رہتے ہیں اْنہیں اصلاح احوال کے لئے حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔