تحریر: علینہ ملک، کراچی بند اندھیری کوٹھری کا آہنی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور بھاری بوٹوں کی دھمک نے چار دیواری کے سکوت کو منتشر کیا تھا، آواز کی گونج اور روشنی کی چکا چوند نے اندر موجود ساکت وجود کو ایک لمحے کے لیے متوجہ کیا۔ داخل ہونے والے باوردی شخص نے اندر پھیلی تعفن کی وجہ سے ناک سکیڑا اور پھر رعونت سے چلتا ہوا اس بے جان وجود کی جانب بڑھا جو روشنی میں اپنی بینائی تلاش کر رہا تھا، اور ایک بوٹ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے دھاڑا۔ بول دماغ درست ہوا یا نہیں، یا ابھی بھی وہی اپنی ضد پر قائم ہے؟ اور لیٹے ہوئے شخص نے آنکھوں سے بازوں ہٹا کر حقارت سے اپنے سامنے کھڑے فرعون صفت شخص کی جانب دیکھا اور پھر اس کی طرف تھوکتے ہوئے ایک بار پھر بازوں آنکھوں پر رکھا تھا درد کی ایک شدید لہر اس کے سینے سے اٹھی تھی مگر ضبط کمال سے اس نے برداشت کیا تھا۔
بول کمینے! آخر کب تک منہ پر چپ کا قفل لگا کر رکھے گا؟ اس کا گریبان تھام کر وہ ایک بار پھر چلایا تھا، کون ہے تمہارے پیچھے کہاں سے دہشت گردی کی تربیت لے کر آتے ہو کون ہے تمہارا لیڈر؟ بولو آخر کب تک بھوکا پیاسا رہنے کا ارادہ ہے یا پھر اسی کال کوٹھری میں دفن ہونا ہے۔ بالوں سے پکڑ کر خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے دھاڑا اور پھر ایک روز دار ٹھوکر رسید کر تے ہوئے واپسی کے لئے مڑا بھاری بوٹوں کی دھمک کچھ دیر تک چار سمت گونجتی رہی۔ اور سیاہ کال کوٹھڑیوں میں بند بے شمار قیدی روشنی اور ہوا سے مستثنیٰ اس سیلن زدہ ماحول میں خود کو صبر کی تھپکی دیتے رہے۔
وادی میں احتجاج کی تحریک ایک بار پھر زور پکڑ چکی ہے۔ وہی فرعونیت کے لبادے میں چھپے انسانوں نے انسانیت پر ظلم کی ایک نئی داستان رقم کر ڈالی، حریت آزادی کے پروانوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی وہ پچھلے کئی برسوں سے حق خودارادیت کے لیے علم بلند کیے ہوئے تھے، دوسری طرف ہال نما کمرے میں اعلیٰ سطح کی ایک اہم میٹنگ جاری تھی۔
برہان وانی کی شہادت نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں پھر سے ایک نئی روح پھونک ڈالی ہے وادی میں بڑھکتی ہوئی اس آگ کو ٹھنڈا کرنا ہوگا ورنہ یہ تحریکیں پھر سے زور پکڑتی جائیں گی۔ سر یہ یقینابارڈر پار سے دہشت گردی کی تربیت لے کر آرہے ہیں۔ ایک باوردی آفیسر نے لقمہ دیا۔ ان کو اس طرح عبرت کا نشان بنا ڈالو کہ یہ پھر سے سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے ہم یہاں کسی قسم کی دہشت گردی برداشت نہیں کر سکتے۔
Burhan Wani
میٹنگ برخاست ہوچکی تھی اور نہتے شہریوں کو جدوجہد سے روکنے کے لیے ایک نیا لائحہ عمل ترتیب دیا جا چکا تھا اور پھر معصوم بچوں اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم کی ایک نئی واردات قلم کی گئی پیلٹ گن استعمال کر کے ہزاروں بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے چہروں کو مسخ اور بدن کو چھلنی کیا گیا کتنوں کی بینائی چھین لی گئی اور کتنے ہی چہرے مسخ کئے گئے ہزاروں بدن چھلنی ہوئے مگر کوئی یارو مددگار نہیں۔ پوری عالمی برادری اور حقوق انسانیت کے علمبردار،ان انسانیت سوز مظالم پر ہنوز خاموش تماشائی، سارا عالمی میڈیا چپ، کیوں کہ دہشت گردی تو وہ ہے جو نہتے کشمیری اپنے حق خودارادیت کے لیے لڑتے ہوئے کر رہے ہیں یا دہشت گردی تو وہ ہے جو مسلمان ظلم سے تنگ آکر ردعمل کے طور پر کرتے ہیں۔ یا اللہ اس تاریک رات کی صبح کب طلوع ہوگی کوٹھڑی میں بند کتنے ہی قیدیوں نے دکھ سے سوچا تھا۔