دنیا میں ہرروز نئی سے نئی اشیاء جدید آرہی ہیں۔ انسان نے چاند کو چھو لیا ہے اور چاند کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاروں پر آباد ہونے جا رہے ہیں۔ سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ جو کام کبھی دس افراد مل کر کر تے تھے اب اس کی بدولت ایک آدمی ہی یہ سارے کام مکمل کرلیتا ہے۔ وقت جس رفتار سے چل رہا ہے اسی رفتار سے انسان ترقی کے منازل طے کر رہا ہے۔ ہر ملک اپنے دفاع کے لیے جدید سے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے۔ ہر ملک اسلحے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اس جدید اسلحے کی وجہ سے ہرطرف دہشت گردی ہو رہی ہے۔ دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہومگر اس میں نقصان تو انسانیت کو پہنچ رہا ہے۔ اموات تو جاندار کی ہورہی ہیں۔ اس وقت دہشت گردی کا شکار پوری دنیا میں سب سے زیادہ جو ملک ہو رہا ہے وہ پاکستان ہے۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ یہ اسلام کے نام پر بنایا گیا تا کہ مسلمان اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں مگر شروع سے آج تک غیر مسلم قوتیں مسلمانوں کے خلاف ہی رہی ہیں۔ نبیوں کے دورسے لیکر آج تک کفار مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی ہے اسی لیے شاید غیر مسلم طاقتیں پاکستان کے خلاف اکٹھی ہوگئیں ہیں۔ اسکے بعد سونے پر سہاگہ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا جو کفار کو بالکل پسند نہیں اور اب ان کی نظر ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی پر ہے۔
Pakistan
پاکستان جو امن کا گہوارہ تھا اس کو ایک سازش کے تحت دہشت گردی کا مرکز بنا دیا گیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو تو اس کی ذمہ داری فوراً پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی میں جو بیرونی اور اندرونی عوامل شامل ہیں ان سے تمام ذی شعور انسان بخوبی واقف ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کو جو عناصر ہوا دے رہے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں ہزاروں معصوم شہری اس دہشت ناک دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ کئی گھر اجڑے، کئی سہاگ اجڑے اور کئی ماوئوں کی گود خالی ہوگئیں۔ حکومت پاکستان اس کے سد باب کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے وہ بھی سبھی لوگوں کے علم میں ہے۔ لیکن بحیثیت قوم اور پاکستانی یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل جل کر اس دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں دھماکے اور خودکش حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ جو چند دن ان دھماکوں سے سکون ہوتا ہے تو امریکی ڈرون ہمارا سکون تباہ کرنے آجاتے ہیں۔ چند شہروں میں تو ٹارگیٹ کلینگ ایسے ہو رہی ہے جیسے بچے ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے لوگوں کو مارتے ہیں۔ پہلے بلوچستان میں شیعہ مسلک کے پروگرام میں دھماکہ کرایا گیا پھر پشاور میں دیوبند کی مسجد میں خودکش حملہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ احتجاج شیعہ برادری یا دیوبند مسلک کا نہیں ہوتا بلکہ اس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اب حال ہی میں بنوں میں دھماکا کر کے دہشت گردوں نے پھر باور کرا دیا کہ ہم پاکستان کے حکمرانوں کے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ اب تو دہشت گردی کی نوبت یہاں تک آپہنچی ہے ہماری سیکورٹی فورسز اور آرمی تک بھی محفوظ نہیں۔
Terrorism
پاکستانی ہونے کے ناطے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نہتے انفرادی طور پر کیونکر دہشت گردی سے نمٹ سکتے ہیں؟ اگر ہم تھوڑا ساغور کریں توہم بھی ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کچھ ایسے عوامل بھی ہیں جن کی بدولت ہم نا صرف انہیں روک سکتے ہیں بلکہ ختم بھی کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقت تو واضح ہے کہ دہشت گردی میں ملک دشمن اور بیرونی طاقتیں کار فرما ہیں لیکن یہ بھی کسی حدتک درست ہے کہ ان عناصر کو کامیاب بنانے میں اندرونی عناصر بھی شامل ہیں۔ دہشت گرد کوئی خلائی شٹل یا غیبی علم کے ذریعے کامیاب نہیں ہورہے بلکہ وہ ہمارے اردگرد ہی موجود ہوتے ہیں لیکن ہم ان کو پہچانتے نہیں۔ اگر تھوڑا سا ان لوگوں پر نظر رکھی جائے تو کسی حد تک ہم ان کی غیر انسانی حرکات کو پہچان بھی سکتے ہیں۔
ہماری آنکھیں کب کھلیں گی؟ کب ہمارے ملک میں امن ہو گا؟ پچھلے کئی سالوں سے حکومت اپنی اپنی مدت پوری کر کے چلی گئیں مگر یہ دہشت گردی آج بھی جوں کی توں ہے۔ پاکستان میں لا ء اینڈ آرڈر کی آواز کب بلند ہو گی؟ کون ہے جو ہمیں امن کے گہوارے میں داخل کرائے گا؟ کیا پاکستان کے حکمرانوں میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ ان مٹھی بھر دہشت گردوں کو ختم کرسکیں؟ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام سیاستدانوں، بیورو کریٹوں، علماء اکرام، طالب علموں، نوجوانوں اور پاک فوج کو مل کرقدم اٹھا نا چاہیے۔ اپنے ملک، اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان کی حفاظت کی خاطر یکجا ہو کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ آئے دن ایک ایک کر کے ہم اپنی جانیں دیتے رہیں گے اور دہشت گرد ہمارے ملک پر قابض ہوتے رہیں گے۔
Aqeel Khan
تحریر: عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com