دہشت گردی معاشرے کا ناسور

Terrorism

Terrorism

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم

آج یہ ایشو ڈسکس نہیں ہوگا کہ نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں نے بجلی، گیس،پٹرول اور پٹرولیم مصنوعات سمیت ضروریات زندگی کی ہر اشیاء کی قیمتوں کو بام ثریا تک پہنچا دیا ہے حالانکہ ایکشن مہم کے دوران انہوں نے جو وعدے وعید کئے وہ سب ہوا ہو گئے اگرچہ پاکستانی عوام کے لئے یہ ایشو بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ایس ایشو پہ بھی سیر حاصل بحث وقت کی ضرورت ہے مہنگائی کا جن جو بوتل سے باہر نکل کر عوام کو کھائے جا رہا اوپر سے حکومت ڈھٹائی سے قربانی کے لئے عوام کو تیار رہنے کی نوید سنائے جاری ہے ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے مہنگائی کے جن کو بوتل پھر کبھی قید کرنے کی سعی کریں گے اب اصل ایشو اور موضوع کی جان بڑھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا کوئی مذہب ہوتا ہے اگر امن کے دشمنوں کا کوئی مذہب ہوتا تو پھر یہ کبھی بھی امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا کو اپنے ناپاک عزائم کی خاطرخاک میں نہ ملاتے نہتے اور پر امن شہریوں کو موت کی نیند سلا دینا کس مذہب میں جائز قرار دیا گیا ہے۔۔۔؟

دنیا میں کونسا مذہب ایسی مذموم کاروائیوں کی اجازت دیتا ہے وطن عزیز کی سرزمین پہ سماج دشمن عناصرکی تخریبی کاروائیوں کی خونی نئی لہر نے شہریوں میں شدید قسم کا خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے دہشت گرد عناصر کی دہشت گردی کی نئی لہر نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے سماج دشمن عناصر جب چاہیں ،جہاں چاہیں بے گناہ نہتے معزز شہریوں کو ابدی نیند سلا کر ریاستی اداروں کو یہ باور کرادیا کہ وہ جیسا چاہیں کر سکتے ہیں ابھی ایک دھماکے میں اپنوں کے لاشے اٹھائے نہیں جاتے دشمنان ملک و امت دوسری جگہ لاشوں کے انبار لگارہے ہیںپاک سر زمین میں نئی تخریب کاری کی لہر وفاقی اور صو با ئی حکو متوں کیلئے ایک کھلا سو الیہ نشا ن ہے اس وقت پورا ملک حالت جنگ میں لہذا قوم اتحاد ویگانگت کااورصبر تحمل سے کام لے تاکہ ملک میں افراتفری پھیلانے کے دشمن کے مکروہ عزائم خاک میں ملائے جا سکیں۔

بلوچستان گزشتہ ماہ سے ہی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ماہ مارچ میں 3 دھماکے ہوئے جس میں 4دہشت گردوں سمیت کم از کم 8 افراد ہلاک ہوئے تھے11 مارچ کو کوئٹہ کے علاقے میاں غنڈی میں پولیس کے محکمے انسدادِ دہشت گردی ”سی ٹی ڈی ” کی موبائل کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 4 اہلکار زخمی ہوگئے تھے17 مارچ کو ڈیرہ مراد جمالی میں ریل کی پٹڑی پر ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں جعفرآباد ایکسپریس کی بوگیاں ٹریک سے اترگئی تھیں جس کے نتیجے میں ماں بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہو گئے تھے۔26 مارچ کو بلوچستان کے ضلع لورالائی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران لیویز اہلکاروں پر حملے کے ماسٹرمائنڈ سمیت 4 مبینہ دہشتگردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھابارہ اپریل کو بلوچستان کے صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میںجمعہ کے مبارک دن کو علی الصبح ہزارہ گنجی کی سبزی منڈی میں بے گناہ تاجروں پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب خریداری کے دوران اچانک دھماکہ ہو گیاسبزی منڈی میں دھماکا اس وقت ہوا جب لوگوں کی بڑی تعداد خرید و فروخت میں مصروف تھی جب کہ دھماکا آلو کی بوری میں نصب دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ہوادھماکے کی زد میں آکر22افراد جاں بحق اور50زخمی ہو گئے کئی زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے جن میں ہزارہ برادری کے افراد بھی شامل ہیںجبکہ کئی دکانوں کا گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔

دھماکے کے فوری بعد امدادی ٹیمیں اور سیکیورٹی فورسز موقع پر پہنچ گئیں جب کہ زخمیوں اور لاشوں کو فوری طور پر سول اور بولان میڈیکل کمپلیس منتقل کردیا گیاہزارہ برادری کے تاجروں کو نشانہ بنایا گیا،دھماکے کی زد میں آکر کئی دکانیں اور گاڑیاں تباہ،لاشوںاور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہزارہ کمیونٹی کے افراد روزانہ یہاں سبزی لینے کے لیے قافلے کی شکل میں آتے ہیں جن کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے پولیس اور ایف سی اہلکار بھی ہمراہ ہوتے ہیںسانحہ کے روزبھی وہ 11 گاڑیوں کے قافلے میں آئے جس میں 55 افراد سوار تھے، اور معمول کے مطابق پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے انہیں منڈی میں پہنچا کر سبزی منڈی کے گیٹ اور اطراف میں پوزیشز سنبھال لی تھیں آلو کی دکان سے سامان گاڑیوں میں لوڈ کرتے ہوئے دھماکا ہوا۔

جبکہ دھماکا خیز مواد آلو کی بوریوں میں چھپایا گیا تھا دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے تفتیش جاری ہے اور حتمی تحقیقات کے بعد ہی کہا جا سکتا ہے کہ آیا دھماکا ریموٹ کنٹرول تھا یا ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیاوزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی بلوچستان سے رپورٹ طلب کر لی ہے زخمیوں ہر ممکن علاج معالجہ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے دہشت گردی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اوراسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کیاحکومت اور اپوزیشن کی شخصیات کے اس واقعہ کی سخت مذمت کی،حالیہ واقعے کے شہدا کے غم میں ہر محب وطن برابر کاشریک اور ہر آنکھ اشکبار ہے شدت پسند سوچ کے حامل افراد معاشرے کا ناسور ہیں اور ان کا تدارک ناگزیر ہے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی سازش کو ناکام بنانا ہو گا۔

انسانیت کے دشمن دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں واقعہ میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور زخمیوں کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے یہ واقعہ دہشت گردی کا گھناؤنا فعل ہے جو ہمارے لیے بحیثیت قوم اس بات کی یاددہانی ہے کہ اس لعنت کے مکمل طور پر ختم ہونے کے لیے چند باقیات اب بھی باقی ہیں دہشت گرد پاکستان کے لوگوں کے حوصلے اوربلند ہمتی پرحملے کرتے ہیں، پاکستان کے اداروں اورعوام نے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے عظیم قربانیاں دی ہیںجو رائیگاں نہیں جائیں گی۔

Dr. B.A. Khurram

Dr. B.A. Khurram

تحریر : ڈاکٹر بی اے خرم