دہشت گردی کا نشانہ مسلمان ہی کیوں

New Zealand Masjid Firing

New Zealand Masjid Firing

تحریر : مہر اقبال انجم

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں نماز جمعہ میں دہشتگرد حملوں کے نتیجے میں پاکستانی باپ بیٹے سمیت 49 نمازی شہید اور متعدد زخمی ہو گئے، جبکہ دورہ پر موجود بنگلادیشی کرکٹ ٹیم بھی اس حملے میں بال بال بچ گئی۔ 4 افراد کو حراست میں لے لیا گیا جن میں آسٹریلوی باشندے سمیت تین مرد اور ایک خاتون شامل ہیں۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسجد میں فائرنگ دہشت گردی ہے۔ انتہاپسند نظریات ناقابل قبول ہیں، ذمہ داروں کو سزا ملے گی۔ فائرنگ کے واقعات کرائسٹ چرچ میں واقع مسجدِ نور اور مسجد لنٹن میں پیش آئے، جس میں مسلح افراد نے مساجد میں داخل ہو کر خودکار ہتھیاروں سے نمازیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ مقامی میڈیاکا کہنا ہے کہ مسجد میں ایک مسلح شخص داخل ہوا جس نے مشین گن سے فائرنگ کی۔ حملہ آور نے پنڈلیوں میں گولیوں سے بھرے میگزین باندھے ہوئے تھے۔

ملزم نے اپنی شناخت آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرینٹ کے نام سے کی ہے حملہ آور فوجی وردی میں ملبوس تھا، جس کی عمر 28سے 40سال تھی۔ جوجدید ہتھیاروں سے لیس اور پیٹرول بموں سے بھری گاڑی کیساتھ پہنچا تھا، جو ہیلمٹ میں لگے کیمرے سے واردات کی ویڈیو لائیو اسٹریمنگ کرتا رہا۔ مسلح شخص نے مسجد میں داخل ہوتے ہی اندھا دھند فائرنگ کی، اس نے کئی بار گن کو ری لوڈ کیا اور مختلف کمروں میں جا کر فائرنگ کی۔ 3 منٹ تک مسجد میں فائرنگ کرنے کے بعد حملہ آور مرکزی دروازے سے باہر نکلا، جہاں اس نے گاڑیوں پر بھی فائرنگ شروع کر دی۔ نیوزی لینڈ پولیس کے کمشنر مائیک بش نے کہا 4افراد کو حراست میں لے لیا گیا جن میں تین مرد اور ایک خاتون شامل ہیں۔

نیوزی لینڈ کے دورے پر آئی ہوئی بنگلا دیش کی کرکٹ ٹیم فائرنگ کی زد میں آنے سے بال بال بچ گئی،کھلاڑیوں نے بھاگ کر جانیں بچائیں ،کھلاڑی فائرنگ کے وقت نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد آئے ہوئے تھے۔نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں واقع مساجد پر ہونے والے حملے سے متعلق مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ایک عینی شاہد کے مطابق دہشت گرد جب ایک مسجد میں قتل عام کرنے کے بعد جب دوسری مسجد میں قتل عام کیلئے پہنچا تو وہاں اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گرد نے دوسری مسجد میں گھستے ہی فائرنگ شروع کردی تھی۔ تاہم ایک نوجوان نے اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دہشت گرد پر چھلانگ لگا دی۔بتایا گیا ہے کہ یہ نوجوان پاکستانی تھا اور اس کا نام نعیم ہے۔نوجوان نعیم نے دہشت گرد کو قابو میں کرتے ہوئے اس سے اس کی بندوق چھین لی تھی۔ بندوق چھن جانے کے بعد دہشت گرد وہاں سے فرار ہوگیا۔ نوجوان نے دہشت گرد کو پکڑنے کی کوشش کی تاہم دہشت گرد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر فرار ہوگیا۔ نعیم کو بھی گولیاں لگی تھیں تاہم وہ پھر بھی دہشت گرد کے سامنے آہنی دیوار بن گیا اور پھر اسے فرار ہونے پر بھی مجبور کر دیا۔اگر نعیم ہمت نہ دکھاتا تو شہادتوں میں مزید اور ہولناک اضافہ ہو سکتا تھا۔مساجد پر اس دہشتگردی کی کارروائی کے بعد نیوزی لینڈ میں بسنے والی مسلمان برادری تاحال سکتے میں ہے تاہم جنوبی بحرالکاہل پر موجود اس ملک میں مسلم برادری اقلیت میں ہے۔

نیوزی لینڈ میں کے آخری مردم شماری 2013ء میں ہوئی تھی جس کے مطابق وہاں 46 ہزار سے زائد مسلمان آباد ہیں جو نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا ایک فیصد ہے۔نیوزی لینڈ کے ادارہ شماریات (اسٹیٹس این زی) کے مطابق خود کو مسلمان بتانے والے افراد کی تعداد میں 2006ء سے 2013ء کے درمیان 28 فیصد اضافہ ہوا جن میں سے ایک چوتھائی نیوزی لینڈ میں ہی پیدا ہوئے۔نیوزی لینڈ میں بسنے والے دیگر مذاہب کے کئی لوگ دائرہ اسلام میں بھی داخل ہوئے۔ ان میں سے کچھ تعداد یورپی نڑاد افراد کی بھی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے کرائسٹ چرچ حملے کے بعد دئے گئے بیان میں کہا کہ ہم 200 ذاتوں اور 160 زبانوں سے زائد پر مشتمل قابل فخر قوم ہیں۔

ہمارے اقدار ایک جیسے ہیں۔ پوری قوم اس سانحے سے متاثرہ برادری کے ساتھ کھڑی ہے۔مساجد پر ہوئے اس حملے اور حملے کے نتیجے میں شہادتوں کے بعد نیوزی لینڈ کے اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر مصطفیٰ فرخ نے کہا کہ ہم یہاں ہمیشہ سے محفوظ رہے ہیں۔ یہاں کے مسلمانوں کو لگتا ہے کہ ہم دنیا کے سب سے محفوظ ملک میں رہتے ہیں اور ہمیں ایسے کسی واقعہ کی اْمید نہیں تھی۔ نیوزی لینڈ میں مسلمان ایک صدی سے رہ رہے ہیں اور ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا تاہم اس کے باوجود ہمارے اندر نیوزی لینڈ کے لیے جذبات تبدیل نہیں ہوں گے۔دوسری جانب مسلم برادری کو نیوزی لینڈ میں کافی چیلنجز کا سامنا ہے۔ مسلمان مہاجرین کو نیوزی لینڈ کے مقامی افراد کم ترجیح دیتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اور انڈونیشیا جیسے ممالک سے نیوزی لینڈ ہجرت کرنے والے مہاجرین کو چین اور فلپائن جیسے دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں زیادہ منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔نیوزی لینڈ کے ہیرالڈ نیوزپیپر کی 2015ء میں شائع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ایک گروہ کی صورت میں مسلمان دیگر مذہبی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ اہل تھے تاہم انہیں روزگار تلاش کرنے میں زیادہ مشکلات تھیں۔ حالیہ برسوں میں نیوزی لینڈ کی مسلمان برادری میں کشیدگی اس وقت سامنے آئی تھی جب 2006ء میں نیوزی لینڈ کے اخبار اور ٹی وی اسٹیشنز پر توہین آمیز خاکے شائع اور نشر کیے گئے تھے۔اس واقعہ کے بعد مسلمان برادری نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور اس کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔

نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم ہیلن کلارک اس حملے کے حوالے سے بیان جاری کرتے ہوئے اسے گھٹیا اور گھناؤنا جْرم قرار دیا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں متاثرہ خاندانوں سے اظہار یکجہتی بھی کیا۔ اس حملے کے بعد مسلمان کمیونٹی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا جس کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر TheyAreUs# کا ہیش ٹیگ متعارف کروایا گیا جو کچھ ہی دیر میں کافی مقبول ہو گیا ہے۔سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے مسلمانوں پر ہونے والے اس حملے کے بعد ان سے اظہار یکجہتی کیا اور اس ہش ٹیگ کے استعمال سے انہیں اپنی حمایت کا یقین بھی دلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی ایک شخص کے لیے نیوزی لینڈ سے متعلق اپنے جذبات کو تبدیل نہ کریں ،یہ ملک جتنا ہمارا ہے اْتنا ہی آپ کا بھی ہے اور یہاں آپ کو ہمیشہ ہی خوش آمدید کہا جائے گا۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ کرائسٹ چرچ حملوں کے بعد 5 پاکستانی لاپتہ ہیں، 4 زخمی ہوئے جنہیں ہسپتال داخل کرا دیا گیا۔ امید کرتے ہیں لاپتہ افراد کا جلد پتہ چل جائے گا۔

لاپتہ پاکستانیوں میں محمد سہیل، شاہد، سید اریب احمد، سید جہانداد علی، طلحہ اور محمد زاہد شامل ہیں۔ واقعے کے بعد برطانوی وزیراعظم ٹریزامے نے اپنے بیان میں کہا کہ کرائسٹ چرچ میں ہونے والے ہیت ناک دہشت گردی کے حملے کے بعد میں پورے برطانیہ کی طرف سے نیوزی لینڈ کے عوام سے افسوس کا اظہار کرتی ہوں۔مسلم ممالک نے بھی نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر ہوئے حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انڈونیشیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بیان میں کہا کہ عبادت کے مقام پر ایسا حملہ ناقابل قبول ہے۔

ملائیشیا، ایران، بنگلہ دیش اور ترکی نے بھی حملوں کی مذمت کی۔ ترک صدر کے ترجمان نے ان حملوں کو نسل پرستانہ اور فاشسٹ قرار دے دیا ہے۔ بھارت کی مسلم کمیونٹی نے بھی ان واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ناقابل قبول قرار دے دیا ہے۔ فرانسیسی صدر میکرون نے نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ فرانس تمام قسم کی انتہاپسندی کیخلاف کھڑا ہے۔ آسٹریلوی وزیراعظم نے نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونیوالے حملے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد پر حملہ کرنے والا برینٹن ٹیرنٹ آسٹریلوی شہری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد میں خطرناک قتل عام پر میں نیوزی لینڈ کے عوام کے لیے نیک خواہشات اور دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں، 49 افراد کو بے حسی سے قتل کردیا گیا جبکہ مزید متعدد بری طرح زخمی ہیں، نیوزی لینڈ کے لیے ہم جو بھی کر سکیں، اس کے لیے ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں، دہشت گردوں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

ہمیں دہشتگردی کا الزام دیا جاتا رہا تھا حالانکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہماری مساجد اور عبادت گاہیں محفوظ نہیں، دہشتگردی کو اسلام سے منسلک کرنے والے اپنے رویے پر غور کریں۔ نیوزی لینڈ کی مسجد میں نہتے نمازیوں پر دہشت گردی کے واقعہ پر عالم اسلام غم میں ڈوبا ہوا ہے اس سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے نتھی کرنے والے اپنے گھر کی خبر لیں۔ وقت آگیا ہے دنیا کو دہشت گردی اور ناانصافی کا جنگل بنانے کی بجائے نیا معاہدہ کیا جائے۔ دہشت گردی کا واقعہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ امن پسند قوتوں کو متحد ہو کر انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو گا، تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے۔ دنیا کا یک بات سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیںہوتا۔ ان کی جنگ انسانیت کے خلاف ہے، اب وقت آگیا ہے کہ نفرت اور انتہا پسندی کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے ریاستی سطح پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں، دہشتگردانہ سوچ کسی ایک ملک، طبقہ کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ہے۔

Mehr Iqbal Anjum

Mehr Iqbal Anjum

تحریر : مہر اقبال انجم