تحریر: لقمان اسد اعلیٰ عدالتوں سے محض سزائے موت پانے والے دہشتگردوں کی پھانسیوں سے کیا ہم اپنے کھوئے ہوئے امن کا کھوج لگا سکیں گے یا اس جنگ کو جیتنے کیلئے ہمیں وسیع تر منصوبہ بندی اور جامع حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بہت سے محاذ پر ان امن دشمنوں سے برسرپیکار ہوکر ماں دھرتی کے حسن، وقار اور امن کو یقینی بنانا ہو گا؟ ماضی میں ہمیشہ یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ جب کبھی کوئی المناک سانحہ وطن عزیز میں پیش آتا ہے تو وقتی طور پر ہمارے حکمران انتہائی جذباتی دکھائی دیتے ہیں۔
کل جماعتی کانفرنسیں بھی وہ کال کرلیتے ہیں اور میڈیا کے سامنے آکر بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر عملی طور پر عموماً کچھ بھی نہیں کر پاتے۔یوں دھیرے دھیرے بڑے بڑے المیے اور سانحات پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور اس وقت تک پھر ہمارے حکمران عملی طور پر ایسے واقعات کی روک تھام کی خاطر کوئی اقدامات اٹھاتے نظرنہیں آتے جس وقت تک پھر ایسا ہی کوئی دلخراش واقعہ خدا نخواستہ رونما نہ ہو جائے۔
قرائن یہ بتاتے ہیں اگر ہم نے بطور ایک قوم”سانحہ پشاور”سے بھی کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ملکی ترقی،امن کا قیام اور حکومتی رٹ ایسے تمام اہداف کا حصول ہمارے لیے ایک بھیانک خواب کی شکل اختیار کرتا چلا جائیگا۔ طالبان کوئی انتی بڑی طاقت نہیں کہ وہ ہمیں مفتوح کرلیں لیکن ان کی اول الذکر اور قابل ذکر کامیابی یہ ہے کہ انہوںنے اب تک ہمیں تقسیم کیا ہوا ہے یعنی ہم میں سے کچھ چاہے وہ حکمران طبقہ ہو، بیوروکریسی یا عام آدمی اب بھی اندر خانہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ”طالبان ”کی صفوں میں اچھوں اور برُوں کی تمیز کو روا اور برقرار رکھا جائے۔
Pakistan
ایسے لوگوں پر ان دہشتگردوں کی دہشت کا خوف بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اب تک ان کیلئے اپنے دلوں میں ہمدردی کا خانہ رکھتے ہیں وہ شاید یہ بھی سوچتے ہوں کہ ہم تمام طالبان کو اپنا دشمن بناکر ان کے خلاف کامیاب نہیں ہوسکتے یقیناً ہمیں اس خوف سے ان لوگوں کو نکالنے کی سعی کرنا ہوگی جو لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں وہ جس طبقہ سے بھی ہیں انہیں اس خوف سے آزاد کرکے طالبان دشمن دھارے میں لاکر اس تقسیم کا خاتمہ ضروری ہے جو طالبان کو حتمی دشمن تصور کرنے کی راہ میں اب تک حائل ہے اس طرح کے لوگ شاید اس لحاظ سے خائف ہیں کہ امریکہ جیسی طاقت جب طالبان کو جھکانے میں ناکام ٹھہری ہے تو پاکستان ان کے ساتھ لڑ کر کیسے کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
کسی بھی لڑائی یا جنگ میں کامیابی کا بنیادی نقطہ منصوبہ بندی اور اتفاق ہوا کرتا ہے اگر ہم دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں ان نکات پر متفق ہوجائیں تو اس باب میں واقعتاً کوئی امر مانع نہیں کہ ہم اس جنگ میں کامیابی کا حصول اپنے لیے ممکن نہ بناسکیں جو اب ہمارے لیے ایک خوفناک صورت اختیار کرتی چلی جارہی ہے ۔رہی بات اس خدشہ کی کہ امریکہ طالبان کو شکست دینے یا ان کی قوت کم کرنے میں ناکام کیوں ٹھہرا تو اس ضمن میں یہ عرض ہے کہ امریکہ کے اپنے مفادات تھے اور پھر امریکہ ایک منافق سٹیٹ ہے وہ کسی بھی عمل میں اس حدتک جاتا ہے جہاں تک اس کے ذاتی مفادات کی حدہوتی ہے۔اس تناظر میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ بطور ملک ہمیں اپنی داخلہ پالیسی اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرکے آگے کے دور میں داخل ہونا چاہیے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کی اکثر ریاستیں اور مملکتیں اپنے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ رہی ہیں اور دنیا کی تیز رو ترقی کے شانہ بشانہ چلنے کیلئے دن رات ترقی کی دوڑ میں سرگرداں ہیں ایسے میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہونے کے باوجود ان کے مد مقابل کہاں کھڑے ہیں۔
اب ہر صورت سرحد پار کے دشمن کا تعین کرنا ضروری ہے جو دوست ہے اس کے ساتھ دوستی کے اصولوں اور ضابطوں کے ساتھ چلنے کی روش ہمیں اختیار کرنی چاہیے اور جو دشمن ہے اس کے ساتھ دشمنی کے اصول و ضوابط کے تحت تعلق روا رکھنا چاہیے جب تک ہم دنیا کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات کی بنیاد رکھ کر اپنی معاشی ترقی کا انحصاف تجارت پر نہیں رکھتے تب تک ہمیں بیرونی دبائو اور آزاد داخلہ وخارجہ پالیسی ترتیب دینے میں مشکلات درکار رہیں گیں ضروری ہے کہ وطن عزیزجو قدرتی وسائل سے مالال ہے ہمیں اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگاتاکہ قرضوں کی دلدل سے بھی ہمیں چھٹکارا میسر آ سکے۔