واشنگٹن (جیوڈیسک) افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ کابل اور واشنگٹن دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔ امریکہ کے دورے پر افغان صدر نے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ امریکہ اور افغانستان کے مشترکہ مفادات دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انہیں ایک دوسرے کے قریب لائے۔
دہشگردی سے جو خطرات افغانستان کو روز مرہ بنیاد پر درپیش ہیں وہ امریکہ اور عالمی برادری کے لئے بھی سنگین خطرہ ہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران افغان سرزمین پر مارے جانے والے ہزاروں امریکی فوجیوں کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں تاہم یہ خوشی کی بات ہے کہ فوجیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے نہ صرف افغانستان کو بلکہ خود امریکہ کو بھی دہشتگردی سے محفوظ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ اب افغان فورسز میں بھی ملک کی سکیورٹی سنبھالنے کی مکمل صلاحیت ہے ۔ پینٹا گون میں امریکی فوجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے کہا کہ ہم امریکہ پر بوجھ نہیں بنیں گے، انہوں نے امریکی شہریوں کا شکریہ ادا کیا جو ٹیکس کے پیسے امداد کی صورت میں افغانستان کو دیتے ہیں، تقریب میں فوجی افسروں، کیری اور دیگر نے شرکت کی، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کیری سے بھی ملے، اوبامہ سے ملاقات میں افغانستان سے فوجیوں کا انخلاء سست کرنے کے منصوبے پر بات ہو گی، امریکن عہدیدار نے کہا کہ قندھار ، جلال آباد فوجی اڈوں کو 2015ء تک کھلا رکھنے پر تبادلہ خیال ہو سکتا ہے۔
امریکہ اور افغانستان کے درمیان دیرپا تعلقات کے امکانات روشن نظر آ رہے ہیں، یقیناً کچھ خدشات بھی ہیں، افغانستان میں کرپشن تشویشناک کا باعث ہے اور انداز حکمرانی کمزور ہے، امریکی صدر باراک اوبامہ اپنے دور صدارت کے اختتام تک افغانستان میں امریکہ کے فوجی مشن کو سمیٹنا چاہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ سال کے اختتام تک افغانستان کے لئے امریکی امداد میں بھی امریکی کانگریس کی جانب سے کمی کی جا چکی ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہے کہ افغانستان اس کو موثر انداز میں استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے، امریکہ کے اپنے سالانہ اخراجات کا دبائو بھی ہے، سابق صدر حامد کرزئی کا ملک میں جو بھی کردار تھا یا امریکہ کی جو بھی خامیاں تھیں اور افغانستان میں چینلز سے نبردآزما ہونے کی ناکامی کا ذمہ دار کسی حد تک امریکہ بھی ہے تاہم سابق صدر حامد کرزئی افغانستان کے مغرب کے ساتھ تعلقات میں اہم مسئلہ رہے ہیں۔
اشرف غنی نے امریکی فوج اور پینٹاگون کے اعلیٰ حکام کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت کی۔ افغان صدر کے مطابق اب افغان عوام اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
پینٹاگون کے احاطے میں منعقدہ تقریب میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری، خفیہ ادارے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن، وزیر دفاع ایشٹن کارٹر اور دوسرے اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی شریک تھے۔ اشرف غنی نے کہا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے لئے ان کی حکومت کو طالبان سمیت متحارب دھڑوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کرنا ہوں گے۔ بالواسطہ امن مذاکرات افغان معاشرے میں شکوک و شبہات کو جنم دیں گے جس کے نتیجے میں قومی یکجتہی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن مذاکرات کے لئے افغانستان میں سازگار ماحول تشکیل دینا بطور صدر ان کی ذمہ داری ہے جس کے لیے قومی اتحاد اور یکجتہی ضروری ہے۔ واشنگٹن میں ‘وائس آف امریکہ’ کی ‘پشتو سروس’ کے ساتھ گفتگو میں افغان صدر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں کوئی بھی غلط قدم یا سوچ مجوزہ امن مذاکرات کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اور اسی لئے وہ مذاکرات کے آغاز کی جانب بہت محتاط انداز میں پیشرفت کر رہے ہیں۔
صدر غنی نے کہا کہ ان کے پیش رو حامد کرزئی نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بہت کوششیں کی تھیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے پاکستان کے 26 دورے کیے تھے۔ لیکن، صدر غنی کے بقول، باوجود کوشش کے وہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول پیدا نہیں کر سکے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے دورِ حکومت میں حالات تبدیل ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ امن مذاکرات کے لئے ان کی حکومت کی حکمتِ عملی کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں افغان صدر نے واضح کیا کہ ان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ ‘ڈیورنڈ لائن’ کا مسئلہ نہیں اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت امریکہ کے علاوہ چین، عرب اور مسلم دنیا کے ساتھ بھی تعلقات کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے۔ دونوں رہنمائو ں کی آج منگل کو امریکی صدر براک اوباما سے ملاقات طے ہے جبکہ کل بدھ کو افغان صدر امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔