تحریر : سید توقیر زیدی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں اب دہشت گردی کا کوئی نیٹ ورک کام نہیں کر رہا دہشت گرد یا تو مارے گئے ہیں یا افغانستان بھاگ گئے ہیں مگر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، کچھ دہشت گرد ابھی باقی ہیں جو سرحد کی دوسری طرف ہیں افغانستان کسی اور کے بہکاوے میں نہ آئے اور نہ ہی کسی اور کا کھیل کھیلے، پاکستان کے ساتھ تاریخی اور مذہبی رشتے کا پاس کرے۔ افغانستان ہمارے دشمن ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زبان استعمال کرتا ہے ہمارے ناکردہ گناہوں کی بھی تشہیر کرتا ہے، ہم دوستی کے حوالے سے ہر بات ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن گیدڑ بھبھکیاں قابلِ قبول نہیں ہیں، دہشت گرد چھپ چھپا کر سرحد عبور کر کے ہمارے عوام پر حملہ کرتے ہیں، بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے ہم ایسے مسائل پر قابو پائیں گے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بارڈر مینجمنٹ کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا وہ ہمیشہ دہشت گردوں کے خلاف اگلے مورچوں پر رہے فرنٹیر کانسٹیبلری (ایف سی) کے کردار کو سراہتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان نے اپنا خون دے کر امن بحال کیا، پاکستانی قوم پر فورسز کی قربانیاں قرض ہیں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں کم ہو رہی ہے چودھری نثار علی خان نے ان خیالات کا اظہار طور خم بارڈر پر مچنی چیک پوسٹ کے دورے کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
چودھری نثار علی خان جب یہ کہتے ہیں کہ دہشت گرد یا تو مارے جا چکے ہیں یا افغانستان بھاگ گئے ہیں تو وہ زمینی حقائق کے مطابق ہی گفتگو کرتے ہیں افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے وقتاً فوقتاً جو کارروائیاں کیں خاص طور پر ضربِ عضب آپریشن کے بعد دہشت گردی کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا۔ اوردہشت گردوں کی کمین گاہیں تباہ کردی گئیں۔ مواصلاتی رابطے ختم کر دئے گئے اسلحہ ساز فیکٹریاں اور ذخیرے بھی ملیا میٹ کردئے گئے، ان آپریشنوں میں بڑی تعداد میں دہشت گرد مارے گئے، جو کسی نہ کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے،وہ فرار ہو کر افغانستان چلے گئے، افغانستان میں اگر ان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں بنانے کا موقع نہ ملتا تو وہ کبھی اس قابل نہ ہوتے کہ دوبارہ پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کرسکیں، جونہی انہوں نے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کیا وہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کے علاقوں میں پہنچ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے لگے جہاں انہیں مقامی سہولت کار میسر آگئے افغان حکومت اگر پاکستان کے ساتھ تعاون کرتی اور ان ثبوتوں کی روشنی میں کارروائیاں کرتی جو اسے پاکستان کی جانب سے فراہم کئے گئے تھے تو ان دہشت گردوں کا قلع قمع ممکن تھا ، جس کا طویل المدت فائدہ افغانستان کوبھی ہوتا اور پاکستان کو بھی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور افغان حکومت نے ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی زیادہ موثر کارروائی نہ کی۔
اب پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنی ہی تدبیروں کے ذریعے ان دہشت گردوں کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا، چنانچہ بارڈر مینجمنٹ بہتر کرنے کا سوچا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر پاکستان آمدورفت کے تمام امکانات ختم کئے جائیں چنانچہ بارڈر پر انتظامات سخت کر دئے گئے، پاکستان کے علاقے کے اندر کی طرف دستاویزات اور مسافروں کی چیکنگ کے لئے چیک پوسٹیں قائم کر دی گئیں۔افغان حکومت نہ صرف اس پر معترض ہوئی بلکہ اشتعال میں آکر پاکستانی چیک پوسٹوں پر فائرنگ بھی کی حالانکہ یہ چیک پوسٹیں پاکستانی حدود کے اندر ہیں جن پر اعتراض کی سرے سے گنجائش ہی نہیں تھی۔ افغان حکومت کا یہ اقدام بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کی حمایت کے مترادف تھا تاہم پاکستانی حکام نے اس پر کسی قسم کے سمجھوتے سے انکار کردیا، اب بارڈر مینجمنٹ سخت کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مسافروں کے بھیس میں دہشت گردوں کی آمد کا امکان کم سے کم ہو گیا ہے، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جو غیر روایتی راستے ہیں جہاں سے گزر کر افغان اور پاکستانی باشندے ایک دوسرے کے ملک میں آجاسکتے ہیں ان پر بھی گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ توقع کرنی چاہئے کہ افغان حکومت اس سلسلے میں پاکستانی حکام کے ساتھ تعاون کرے گی۔
Terrorism
چودھری نثار نے یہ بھی کہا کہ دنیا میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں کم ہو رہی ہے یہ بھی حقیقتِ حال کا اظہار ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ جنگ چھیڑ رکھی ہے داعش نے عراق اور شام کے کچھ علاقوں میں تو باقاعدہ قبضہ کرکے اپنی عملداری قائم کر رکھی ہے اور تیل کے کنوؤں سے نکالا جانے والا تیل عالمی منڈی میں سستے داموں فروخت بھی کیا جارہا ہے، اسی طرح اور بہت سے ملکوں میں بھی ریاستی اتھارٹی کو مسلح جنگجوؤں نے باقاعدہ چیلنج کررکھا ہے، افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود ریڈ زون میں بھی دہشت گردی کے افسوسناک واقعات ہو جاتے ہیں، کئی یورپی ملکوں میں بھی دہشت گردی ہو رہی ہے، ان حالات میں پاکستانی سیکیورٹی افواج کے ارکان نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دہشت گردوں پر کاری ضربیں لگائی ہیں اور انہیں بھاگنے پر مجبور کردیا ہے۔تجزیاتی رپورٹ بی این پی کے مطابق چودھری نثار علی خان نے کہا کہ ان قربانیوں کا قرض پاکستان کی قوم پر ہے۔یہ بات تو درست ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد بھاگ رہے ہیں اور دہشت گردی کم ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود حال ہی میں بلوچستان میں دہشت گردی کے ایسے بڑے واقعات ہوئے ہیں جن کی وجہ سے پوری قوم سوگوار ہے اور ان سے سیکیورٹی انتظامات میں رخنے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے فول پروف سیکورٹی انتظامات کئے جائیں اور کوئی ایسی کمی نہ چھوڑی جائے جن سے دہشت گرد فائدہ اٹھا سکیں۔ دہشت گرد نہ صرف جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں بلکہ وہ جنگی چالوں میں بھی مہارت رکھتے ہیں، انہیں جہاں کہیں سیکیورٹی انتظامات ناقص نظر آتے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی نے امرتسر کی حالیہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کے متعلق جس قسم کی گفتگو کی تھی چودھری نثار علی خان نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے اور بجا طور پر افغان حکومت سے کہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کا کھیل نہ کھیلے، بھارت، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال کررہا ہے بھارت کے تربیت یافتہ ایجنٹ افغانستان کے راستے ہی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ پاکستان نے تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو کئی عشروں سے پناہ دے رکھی ہے۔
کانفرنس میں پاکستان کے اس ایثار کی تعریف بھی کی گئی لیکن جس طرح اشرف غنی نے پاکستان پر الزام تراشی کی روس اور چین کے مندوبین نے فوری طور پر ان کا جواب دے دیا اور کہا کہ پاکستان تو خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس لئے پاکستان پر الزام تراشی درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ افغانستان اور پاکستان مل کر دہشت گردی پر قابو پاسکتے ہیں ویسے بھی اس وقت دہشت گردی کی جو لہر دنیا بھرمیں پھیل چکی ہے اس پر متحد ہو کر ہی قابو پایا جاسکتا ہے اس لئے بہترین طرزِ عمل یہی ہے کہ افغانستان ، پاکستان کے ساتھ تعاون کو فروغ دے ،اسی طرح دونوں ملکوں میں دہشت گردی کو قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔