تحریر : آصف خورشید رانا نہیں جناب ! ایسا نہیں ہوتا ۔دنیا میں بہت سی ریاستوں کو سیکورٹی مسائل ہوتے ہیں لیکن اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جاتے ہیں ۔سیاسی پوائنٹس سکورنگ اور ہے اور قوم کا مستقبل محفوط کرنا اور ہے۔عمل ہر حال میں عمل ۔ دہشت گردی کے عمل کو کوئی مذہبی چادر میں چھپانے کی کوشش کرے تو بھی اور اگر سیاسی لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرے تو بھی اس کا خاتمہ جڑوں سے ہونا چاہیے آرمی پبلک سکول کے المناک سانحہ گزرے پانچ ماہ ہو چکے ہیں اس دوران بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا ،دہشت گردوں کے سلیپنگ سنٹرز تک ان کا پیچھا کیا گیاایک بڑی تعداد یا تو ماری گئی یا پھر گرفتار کر لی گئی مساجد میں نفرت انگیز تقاریر ، مسلکی منافرت ، فرقہ وارانہ جلسے اور جلوس پر پابندی لگا دی گئی، ذرائع ابلاغ میں دہشت گردوں کے بیانات شائع کرنے اور انٹرویو پر بھی پابندی عاید کر دی گئی
غرضیکہ دہشت گردوں کے خلاف مختلف انداز سے گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری تھا کہ وہ طاقتیں جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ دار تھیں انہیں اس بات کا اندازہ ہو رہا تھا کہ گیم ان کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قوت ایک صفحہ پرآ گئی اور واضح طور پر دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جا چکا تھا جس کی حتمی نتیجہ دہشت گردی کیا خاتمہ تھا ۔سیکورٹی ماہرین جانتے ہیں کہ گوریلا جنگ کے خلاف جنگ جیتنا انتہائی مشکل ہو تا ہے جبکہ وزیرستان کی علاقائی ساخت بھی کچھ اس قسم کی ہے کہ وہاں ایسے دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنا
جنہیں بیرونی قوتوں سے بھرپور تعاون حاصل ہو اور جنہیں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعدہمسایہ ملک کی پناہ گا ہ بھی دستیاب ہو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے لیکن ان مشکلات کے باوجودپاکستان کی عسکری قیادت نے یہ طے کر لیا تھا کہ انہوں نے دہشت گردی کے اس عفریت کا خاتمہ کرنا ہے اس کے لیے سیاسی قیادت کو تھپکی دی گئی افغانستان کے ساتھ دوٹوک بات کی گئی جس کا کافی مثبت جواب ملا اورواضح کامیابیاں ملنا شروع ہو گئیں ۔آپریشن ضرب عضب اور آپریشن خیبر ٹو کے بعد ملک بھی دہشت گردی کا کارروائیوں میں بہت حد تک کمی آچکی تھی ۔ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی مانیٹرنگ کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کانفلیکٹ مانیٹرنگ اینڈ سیکورٹی سٹڈیزکی گزشتہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں نمایا ں طور پر کمی آئی ہے اورسیکورٹی فورسز اور عوام پر دہشت گردوں کے منظم حملے دم توڑتے جا رہے ہیں یہی نہیں بلکہ پنجاب میں گزشتہ ماہ سے دہشت گردی کا کوئی برا واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا
Pak Army Operation
دوسری جانب اگر چہ فاٹا میں کچھ واقعات ہوئے لیکن ان کی تعداد پہلے کی نسبت خاصی کم تھی جس کی بڑی وجہ آپریشن ضرب عضب کا درست سمت میں جاری رہنا ہے ۔ یہ حالات یقینا ان قوتوں کے لیے گہری تشویش کا باعث تھے جو اس ملک کو عدم استحکام بلکہ توڑنے کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔ ضرب عضب کی کامیابی کے بعد دہشت گردی کو پروان چڑھانے والوں نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا ۔پہلا کام تو یہ تھا کہ کسی طرح ضرب عضب کو متنازعہ بنایا جائے لیکن اس میں انہیں بری طرح ناکامی ہوئی اور عوام کا اعتماد مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔ اس ھوالہ سے دہشت گردی کی حکمت عملی کو تبدیل کیا گیااور اب ”نرم اہداف” تلاش کیے گئے جن میں سے پہلا ہدف آرمی پبلک سکول بنا جہاں معصوم نہتے بچوں کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا تاہم اس واقعہ کے بعد عوام حکمران اور عسکری قیادت کا دہشت گردی کے خاتمہ کا عزم مزید پختہ ہو گیا اور عوام کے تمام طبقات اکٹھے ہو گئے ۔اس سانحہ کے بعدقومی ایکشن پلان کے تحت مختلف اقدامات کیے گئے اس سانحہ نے دہشت گردوں کو بالکل تنہا کر دیا۔
اگرچہ عسکری اداروں نے بغیر کسی مسلک،مذہب اور سیاسی وابستگی کے دہشت گردی کے تمام عناصر کے خلاف کارروائی کی۔ تاہم ایک خلا ضرور رہ گیا جس کے تحت دانستہ یا غیر دانستہ یہ ابہام پیدا کیا گیا کہ شاید عسکری ونگ رکھنے والی سیاسی جماعتیں اس ایکشن سے مبرا ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گرد عناصر نے سیاسی پناہ لینے کی کوشش کی۔اگرچہ تمام سیاسی جماعتیں اس حوالے سے انکاری ہیں تاہم عسکری و سیاسی قیادت کو اس حوالے سے ایک پختہ عزم کر لینا چاہیے کہ جماعت چاہے مذہبی ہو یا سیاسی کسی کو پاکستان کی معصوم جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سانحہ صفورا چونگی کے بعد قومی ایکشن پلان پر نظر ثانی کرنے کی پھر سے ضرورت محسوس ہو رہی ہے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ دشمن کہاں کہاں اور کن کن طریقوں سے ہم پر حملہ آور ہے ۔قومی ایکشن پلان میں ہماری تمام تر توجہ اندرونی دشمن پر مرکوز رہی ہے بدقسمتی سے پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا رخ مذہبی طبقے کی جانب موڑ دیا جائے جس کا لازمی طور پر نتیجہ بیرونی دشمن سے غفلت کی صورت میں نکلتا ہے ۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ قوم فرقہ واریت کی متحمل نہیں ہو سکتی قوم کا اتحاد وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے تاہم ہماری توجہ بیرونی دشمن پر بھی ہونی چاہیے صفورا واقعہ سے پہلے ہی بھارت خفیہ ایجنسی ”را”کے پاکستان میں دہشت گردی می ملوث ہونے کے ثبوت ملتے رہے لیکن سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں اور نتیجہ ہم دیکھ چکے ہیں
Pakistan
پاکستان کی معاشی حب اس وقت اس دہشت گردی کی زد میں ہے ۔اس دہشت گردی میں امریکہ اسرائیل اور بھارت کیے ملوث ہونے کو کس طرح سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے جبکہ بلوچستان میں صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بڑے واضح انداز میں کہہ چکے ہیں کہ علیحدگی پسندوں کو ”را” کی جانب سے بھرپور تعاون مل رہا ہے ۔کئی علیحدگی پسند بھارتی ویزے پر بین الاقوامی سفر کرتے ہیں پھر کراچی سے ملنے والے اسلحہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت ایجنسی ملوث ہے ۔چین کے ساتھ اقتصادی اشتراک بھارت اور امریکہ کے لیے سردرد بنا ہوا ہے گوادر کے ذریعے پاکستان کامعاشی طور مضبوط بھارت کو کسی طرح منظور نہیں ہے افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات اور کشمیر میں پھر سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا کھڑا ہونا بھارت کو پاگل کیے ہوئے ہے۔
اس لحاظ سے پاک چین راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بھی دہشت گردی کروانا بھارت کی اہم ضرورت تھا ۔اب تو یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ اس میں ”را” ملوث ہے لہٰذا قومی نیشنل ایکشن پلان کا رخ تھوڑا سا بیرونی دشمن کی طرف بھی موڑ لینا چاہیے اور جو لوگ آئے روز موم بتیاں لے کرایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں ایک طرف وہ سیکورٹی اداروں کو لعن طعن کرنے میں کوئی کس نہیں چھوڑتے تو دوسری طرف ان کی ساری محنت اس پرہوتی ہے کہ دہشت گردی کی یہ جنگ صرف اور صرف پاکستان کے مذہبی طبقے کے خلاف لڑی جائے اور اگر کسی جگہ بیرونی ہاتھ کا سراغ بھی مل جائے تو ان کے چہروں کے کیفیت ہی بدلنا شروع ہو جاتی ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ فوج وہ واحد اکائی ہے جو قوموں کو جوڑے رکھتی ہے دشمن آپ کی فوج پہ انگلیاں اٹھائے گا یہ اس کا کام ہے مگر جب قوم خود اپنی فوج پہ انگلیاں اٹھانے لگے سمجھ جائو اس قوم کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔اس لیے اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا
ایک طرف ہمارے ادارے ہماری عوام دہشت گردی کی جنگ میں قربانیاں دے رہے ہیں تو دوسری طرف موم بتی مافیا اپنے ایجنڈے پر عمل کر وانا چاہ رہا ہے جس کا واحد مقصد پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا اور پاکستانی سیکورٹی اداروں کو بدنام کرنا ہے ۔اب وقت آ گیا ہے کہ ٹی وی پر بیٹھ کر بھارت کی حمایت اور اپنے اداروں کی کردار کشی کرنے والوں کے خلاف بھی موثر اقدمات کیے جائیں ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فائنل رائونڈ شروع ہے اس لیے عمل ہر حال میں عمل ۔ دہشت گردی کے عمل کو کوئی مذہبی چادر میں چھپانے کی کوشش کرے تو بھی اور اگر سیاسی لبادہ اوڑھنے کی کوشش کرے تو بھی اس کا خاتمہ جڑوں سے ہونا چاہیے۔