تحریر : انجم صحرائی دیر سے سہی مگر ایک بڑی خبر سننے کو مل ہی گئی اور وہ یہ کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے دہشت گردوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر تے ہو ئے کہا ” دہشت گر دی کے خلاف جنگ کی قیادت خود کروں گا۔ نتائج کچھ بھی ہوں جنگ منطقی انجام تک پہنچائیں گے نظریہ انتہا پسندی کو شکست دینے کے لئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، دہشت گردوں کے مظالم بھول یا معاف نہیں کر سکتے ” اس سے پہلے میاں صاحب ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ دہشت گر دی کے خلاف جنگ چیف آف آرمی سٹاف کی قیا دت میں لڑی جا رہی ہے وزیر اعظم کے اس بیان سے مطلب نکا لنے والے یہ مطلب نکا ل کر بغلیں بجا یا کرتے تھے کہ شا ئد دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں حکو مت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہیں اور قوم بٹی ہو ئی ہے تقسیم ہے۔
قوم آئے روز جنا زے اٹھا تی رہی اور ہماری سیاست ایک عرصے تک انٹی طا لبان اور پرو طا لبان کے محور میں گھو متی رہی۔الطاف حسین نے دہشت گرد طا لبان کی بات کی تو سبھی پرو طالبان سیاسی قو تیں ان کے در پے ہو گئیں۔ مساجد، امام بار گا ہیں، مزارات، سکول اور چو راہے ان کی دہشت گر دی کا نشانہ بنے بیشتر نے کہا کہ یہ درند گی کر نے والے مسلمان نہیں ہو سکتے، طالبان تو اللہ رسول کو ما ننے والے ہیں وہ مساجد، مزارات اور جنا زوں میں کیسے بم دھما کے کر سکتے ہیں، قو می تنصیبات ان کا نشا نہ بنیں تب بھی ہم نے اپنے قومی دشمنوں کو نہیں پہچا نا ہم نے کہا ان وا قعات کے پیچھے را، مو ساد اور امریکہ کا ہا تھ ہے۔ 2013 کے الیکشن میں یہ پرو طا لبان سیاسی فیکٹر اتنا با اثر نظر آ یا کہ انتخابات میں وہی سیا سی جما عتیں انتخابی مہم چلا تے نظر آ ئیں جن کے با رے میں کہا جاتا تھا کہ ان جما عتوں کی قیادت طالبان سے گفت و شنید کر کے انہیں قو می دھا رے میں لانے کی حما یتی ہیں انٹی طالبان سیاسی جما عتیں بند کمروں میں انتخابی مہم چلا تی نظر آئیں ۔پی پی پی ، متحدہ قو می مو و منٹ اور اے این پی سمیت انٹی طا لبان جما عتیں 2013 کے انتخابات میں کھلی انتخا بی مہم نہیں چلا سکیں۔
مرکز میں مسلم لیگ ن اور کے پی کے میں تحریک انصاف کے بر سر اقتدار آنے کے بعد امید ہو چلی تھی کہ اب طالبان سے مذاکرات ہوں گے اور قوم دہشت گردی کے نا سور سے چھٹکارا حا صل کر لے گی عمران خان نے تو فوج کے آ پریشن پے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہو ئے طالبان کو آفس تک مہیا کر نے کا مطا لبہ کیا مگر طالبان کے لئے سافٹ کارنر رکھنے والی یہ سیا سی قو تیں بھی طالبان کے مزاج دہشت گر دی میں کو ئی تبد یلی نہ لا سکیں۔ پنجاب میں ہو نے والے سا نحہ واہگہ بارڈر اور حال ہی میں ہو نے والے سانحہ پشاور نے ان پرو طا لبان حکو متوں کی چو لی ہلا دیں۔ آ ر می پبلک سکول پشا ور کے معصوم بن کھلے گلا بوں کو بے دردی سے مسلنے کی کا روائی نے قوم کی سا ری غلط فہمیاں دور کر دیں شہدائے پشا ور نے اپنی جا نوں کا نذ رانہ دے کر قوم کو اس کے دشمن کا چہرہ عیاں کر دیا وزیر داخلہ نے ٹھیک کہا کہ دشمن با ہر کا نہیں ہما رے اندر کا ہے یہ مارنے والے نہ تو غیر ملکی تھے اور نہ ہی کسی غیر ملکی ایجنسی کے ایجنٹ۔ یہ مسلمان تھے پاکستانی تھے اور طا لبان تھے۔
Peshawar Incident
سانحہ پشاور کے اتنے بڑے رد عمل کی تو قع شائد طالبان کو بھی نہیں تھی اس لئے کہ وہ تو 14 بر سوں سے یہی کچھ کر رہے ہیں انہوں نے تو ہمیشہ اس قوم کو لا شوں اور بارود کے تحفے ہی دئیے ہیں مگر ہر وا قعہ کے بعد اگر ایک طبقہ ان کی مذ مت کر رہا ہو تا تھا تو دو سرا طبقہ ان کے اس عمل کو رد عمل قرار دے کر ان کی وکا لت کر رہا ہوتا تھا۔ مگر شا ئد قدرت کو بھی زمیں پر ہو نے والی اس سفا کیت اور بر بریت کے شکاربے بس اور بے گناہ انسا نوں اور معصوم انسا نوں پر رحم آ ہی گیا جبھی تو یہ معجزہ رو نما ہوا کہ بکھری ہو ئی قوم یک جان و یک قالب ہو گئی۔ ہونا یہ چا ہئیے تھا کہ معصوم بچوں کے ہو لناک قتل عام کے بعد لوگ خوف کے مارے گھروں میں دبک جا تے مگر ہوا اس کے بر عکس جو نہی سا نحہ پشا ور کی خبر لو گوں تک پہنچی قوم سڑ کوں پے سراپا احتجاج بن گئی سا نحہ پشاور کے سوگ میںجتنی بڑی ملک گیر شٹر ڈائون ہڑ تال ہو ئی تا ریخ میں اتنی مکمل اور بھر پور شٹر ڈا ئون کبھی بھی کو ئی سیا سی قوت نہیں کر اسکی۔ہر گلی محلے قصبے شہر میں اتنے تعزیتی اجلاس ہو ئے احتجا جی ریلیاں نکلیں۔
اتنے پھول شہداء کے نام کئے گئے اور اتنی شمعیں روشن کی گئیں کہ ایک تاریخ رقم ہو گئی لگتا ہے کہ ہم سب قوم بن گئے ایک پاکستانی زندہ قوم۔ کہا جاتا ہے کہ لو گوں کے ہجوم کو ایک قوم بنا نے کے لئے چا رعوامل میں سے کسی ایک کی ضرورت ہو تی ہے۔ کر شماتی لیڈر شپ۔ معیشت۔ کوئی بڑا قو می سا نحہ یا پھر انقلاب۔میں سمجھتا ہوں کہ پا کستان کی تا ریخ میں تین مواقع ایسے آ ئے جب قوم جاگ سکتی تھی۔ قوم بن سکتی تھی ۔ ایک مو قع تحریک پا کستان کے وقت جب بر صغیر پاک و ہند کے مسلما نوں کو قا ئد اعظم کی صورت ایک کر شما تی لیڈر شپ ملی۔ اور بر صغیر کے سیاسی ، سما جی اور معاشی طور ہر بکھرے ہوئے کمزور مسلمانوں نے ایک قوم بن کر آزادی کی جنگ لڑی اور انگریز سا مراج کی ہندو نوازی کے با وجود پا کستان حا صل کر لیا یہ ایک کر شما تی لیڈر شپ کا ہی کمال تھا کہ وسائل نہ ہو نے کے با وجود ایسی نو زا ئیدہ آزاد مملکت کو جس با رے اس کے دشمن دنوں کی زند گی کی بات کرتے تھے ایک کا میاب اور مستحکم مملکت بن کر سا منے آ ئی ۔پا کستا نی قوم کی بد قسمتی کہ یہ کر شما تی لیڈر شپ بہت جلد اس کا ساتھ چھوڑ گئی قا ئد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار کی غلام گر دشیں منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق ایک مذاق بن کر رہ گئیں۔
نا اہل قیادت قوم کو انتشار ، افتراق و تفریق کے علا وہ کچھ نہ دے سکی بلا خر قومی یکجہتی اور ملی مفا دات کی جگہ ذاتی مفادات کی بنیاد پر حصول اقتدار کی سیا ست نے پا کستان دو لخت کر دیا لیکن اسی دور میں ایک بار پھر ذو الفقار علی بھٹو کی صورت میں ایک کر شما تی لیڈر شپ پا کستا نیوں کو نصیب ہو ئی ، سقو ط ڈھا کہ کے عظیم دکھ اور سا نحہ کے بعد بلا شبہ بھٹو شہید نے اس بلکتی ، سسکتی منتشر قو م کو ایک بار پھر زندہ جا وید کر دیا مگر ایک بار غیروں اور اپنوں کی رشہ دوا نیوں نے قوم کی سوچ سلب کر لی اور ہم پھر اند ھیروں میں گم ہو گئے۔کہا جا تا ہے کہ امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ میں مذ ہب کے نام پر ہم نے امریکہ کا ساتھ دے کر اپنی قبر کھو دی۔ یہ اسی امریکہ نوازی کا تحفہ ہے جو کلا شنکوف ، ہیروئن اور طالبان کی صورت ہمیں ملا۔ یہ جو ہمارا ایک مکتب فکر کہتا ہے کہ ہم دو سروں کی جنگ لڑ رہے ہیں ا سے کلیتہ غلط نہیں کہا جا سکتا، مر حوم ضا ء الحق کے دور میں امریکہ اور روس کے درمیان محاذ آرائی وا قعی ہما ری جنگ نہیں تھی ہمیں اس کا حصہ نہیں بننا چا ہیئے تھا مگر یہ اس وقت کی بات ہے آج یہ جنگ ہماری بن چکی ہے یہ کمبل وہ ہے جو ہمیں گذ شتہ چودہ سالوں سے پکڑے ہو ئے ہے۔ سچی بات ہم اسے چھوڑتے ہیں مگر یہ ہمیں نہیں چھوڑ رہا ۔ اب یہ کمبل آ کٹو پس کا روپ دھار چکا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس آ کٹو پس کے بازو کاٹ کے نجات حا صل کریں ۔ پشاور میں سینکڑوں معصوم شہیدوں نے اپنے لہو کا نذرانہ دے کر ہمیں اپنی اوقات یاد کرا دی ہے۔ اس ایک عظیم سا نحے نے ہم حر ماں نصیبوں کو ایک قوم بننے کے لئے بنیاد فراہم کر دی ہے۔ اب ضرورت ہے ایک کر شما تی لیڈر شپ کی جو اس بہتے معصوم لہو کی بنیاد پر ایک قوم تشکیل دے سکے۔ میاں نواز شریف کے آج کے بیان نے مجھ جیسے قوم پرستوں اور وطن پرستوں کوایک بار پھر حو صلہ دیا ہے پر امید کر دیا ہے لگتا ہے کہ اب قیادت قیادت بنے گی۔ جو اپنی ذات، مفادات اور مصلحتوں سے با لا تر ہو کر پا کستان اور پا کستا نیوں کی جنگ لڑے گی۔ اگر ہم چا ہیں تو سانحہ پشاور ہمیں قوم بنا سکتا ہے کہ یہ دکھ سبھی کا سانجھا ہے۔