تحریر : قادر خان یوسف زئی امریکی سراغ رساں اداروں کی جانب سے ایک رپورٹ منظر آئی تھی کہ” پاکستان اب امریکا کے بجائے دیگر عالمی طاقتور قوتوں کے جانب رجوع کررہا ہے” ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسوں میں امریکی خواہشات و مطالبات کا کافی عمل دخل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان و امریکا تعلقات میں سرد و گرم دور آتے رہے ہیں۔ امریکا نے پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے جسے غیر دانشمندانہ طرز عمل قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان واحد سپر پاور کے خود ساختہ تصور کی وجہ سے امریکی مفادات کی جنگ سے متاثر ہو رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے واحد عالمی سپرپاور رہنے کے خبط کی بنا پر پاکستان کے لئے مسلسل ڈومور کے مطالبے ناقابل تسلیم ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کے تحفظات کو نظر انداز کئے جانے کی پالیسی کے سبب بالا آخر مملکت نے اپنی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی پیدا کی اور بتدریج امریکا کے حلقہ ِ اثر سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ جب تک دنیا میں امریکا اورسوویت یونین بلاک موجود تھے تو عالمی طاقت کے میزان میں توازن موجود تھا لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکا واحد عالمی طاقت بن کر ابھرا تو عالمی طاقت کے مسند پر براجمان ہونے کے بعد علاقائی اور عالمی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے عادت اپنالی۔زمینی حقائق کے برخلاف امریکا اپنے حلیف پاکستان سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔امریکا کی جانب سے بیانیہ سامنے آچکا ہے کہ امریکا کا سب سے بڑا دشمن دہشت گردی نہیں ہے۔ اس کی واحد وجہ سب کے سامنے ہے کہ چین اقتصادی طور عالمی افق پر چھانے کی مکمل تیاری کرچکا ہے۔ آنے والی دہائی میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے بعد چین کی اقتصادی طاقت کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔
امریکا چین کے اقتصادی طاقت کو روکنے کے لئے افغانستان کو امریکی چھائونی میں تبدیل کرنے کی کوشش میں جُتا ہوا ہے۔ بلکہ امریکا نے اس بات کا اظہار بھی کردیا ہے کہ وہ افغانستان کو فتح کرنے کے لئے نہیں آیا تھا۔ امریکا کے مضحکہ خیز بیان پر اقوام عالم خنداں ہے۔ جس کا سارا غصہ وہ پاکستان پر اُتارنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔پاکستان نے اپنی تزیرواتی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے روس کی جانب قدم بڑھا دیئے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف بھی میونخ سیکورٹی کانفرنس میں اظہار کرچکے ہیں کہ ’40برس قبل اپنائی گئی پالیسی غلط تھی’۔
پاکستان نے ماضی میں علاقائی حقائق کو مستقبل بینی سے ادارک نہیں کیا تھا جس کا خمیازہ آج تک وطن عزیز بھگت رہا ہے۔پاکستان نے زمینی حقائق کا ادارک کرتے ہوئے روس ، ایران اور ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پاکستان نے یہاں اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگاکہ چین( گو کہ آزمایا ہوا انتہائی اعتماد کا حامل ملک ہے) پر بھی امریکا کی طرح انحصار نہ کیا جائے۔چین نے پاکستان کے ساتھ ہر اچھے و بُرے وقت میں ساتھ دیا ہے اور پاکستان کو عالمی تنہائی سے بچانے کے لئے پوری قوت صرف کی ہے۔ لیکن چین دنیا میں جس طرح نئے روپ کے ساتھ سامنے آرہا ہے اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کسی مرحلے پر چین اپنے مفادات کی وجہ سے پاکستان پر اپنا دبائو بھی استعما ل کرسکتا ہے۔چونکہ روس نے ماضی کے مقابلے میں اپنا رویہ و تاثر تبدیل کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں خطے و علاقائی اہمیت کا ادارک کرلیا ہے اور بین الاقوامی معاملات میں امریکا کے مفاد پرست پالیسیوں پر مداخلت بھی کررہا ہے ۔ اس وجہ سے امریکہ مخالف ممالک کو نئے بلاک میں شمولیت سے ڈھارس مل رہی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کو امریکا کے مفادات میں حائل مضبوط بلاک تصور کیا جانے لگا ہے۔ پاکستان نے امریکی عدم تعاون کے بعد روس سے اپنے تعلقات بڑھانے کے لئے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پیدا کی۔یہ خارجہ پالیسی یکطرفہ نہیں ہے بلکہ روس نے بھی مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھایا جس کے سبب جنوبی ایشیا کے ممالک نے بھی روس سے تعلقات بڑھانے کی خواہش بڑھی ہے۔
خطے میں صرف واحد طاقت کے تصور کی وجہ سے روس کو امریکا کے مخالف دوبارہ صف آرا ہونے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ خاص طور پر شام کی خانہ جنگی میں روس نے امریکا کے کردار کو کافی نقصان پہنچایا اور ایرانی مفادات کو تحفظ فراہم کیا۔ شام کے بعد لبنان میں بھی روس ایران کے تعاون سے اثر رسوخ بڑھا رہا ہے ۔ امریکی خارجہ پالیسی کی مخالفت کی وجہ سے روس کا نمایاںکردار بن کر سامنے آیا کہ امریکا کو روس آج بھی چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ سرد جنگ کے خاتمے سے روسی طاقت کم ضرور ہوئی تھی لیکن ختم نہیں ہوئی ۔پاکستان نے ماضی کی غلطیوں کا ادارک کرتے ہوئے روس کی جانب قدم بڑھایا ہے ۔ پاکستان افغانستان میں مسلسل امریکی مداخلت و امن قیام کرنے کے حوالے سے عدم تعاون کی بنا پر روس کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوا ہے۔ امریکا ، افغانستان میں امن قائم نہیں کرنا چاہتا ۔ اس خدشے کا اظہارچین ، ترکی اور روس بھی کرچکے ہیں۔
افغانستان میں قیام امن کے لئے روس نے خود کو پیش کیا تھا لیکن افغانستان نے امریکی ایما پر روسی پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔ گو کہ اس وقت امریکا کے دنیا بھر فوجی اڈے ہیں اور روس کے پاس عسکری طاقت بھی موجود ہے لیکن معاشی طور پر روس اتنامضبوط نہیں کہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکے اس کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے اور نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔ اس لئے بتدریج روس اپنے معاشی بحران سے بھی نکلنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین بھی امریکا کے خلاف کھل کر جانے سے فی الوقت گریزاں ہے کیونکہ چین کے لئے سب سے بڑی مارکیٹ امریکا اور یورپ ہے ۔ جب تک چین عالمگیر سطح پر امریکا کا متبادل نہیں بن جاتا اس وقت تک نیا بلاک متحاط رہ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا رہے گا۔پاکستان نے اسی تناظر کے تحت روس کے ساتھ داعش کے خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے فوجی تعاون کی منصوبہ بندی کی ہے۔ کیونکہ ثابت ہو رہا ہے کہ امریکا افغانستان میں جمع ہونے والے داعش کو جان بوجھ کر نظر انداز کررہا ہے جس کی وجہ سے افغانستان کے پڑوسی ممالک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف کا کہنا تھا کہ” ہم دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق پاکستان کی صلاحیت بڑھانے کے لیے روس کی آمادگی کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ داعش پورے خطے کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔ سرگئی نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اولیت حاصل ہے۔انہوں نے بتایا کہ روس اور پاکستان کی اسپیشل فورسز کے درمیان 2016 سے فوجی مشقیں ہو رہی ہیں جو اس سال بھی جاری رہیں گی۔لاوروف سرگئی نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو کی قیادت کے اتحاد کی جانب سے داعش کے خطرے کو کچلنے کی کوششوں پر ماسکو کو سنجیدہ نوعیت کے شکوک و شبہات ہیں”۔
روس کے ساتھ ایران بھی امریکا کو افغانستان میں داعش کی موجودگی کا موجب قرار دیتا ہے ۔ داعش کے خلاف امریکا اور افغانستان کی غیر سنجیدگی خطے میں تشویش کا سبب بن رہی ہے۔ گو کہ امریکا ان الزامات کی تردید کرتا ہے لیکن بادی النظر امریکا کی جانب سے ایسے موثر اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے کہ وہ دہشت گردوں کی جانب سے منشیات کی اسمگلنگ ، افیون کی کاشت سمیت افغانستان میں موجود ایسے شدت پسند گروپوں کے خلاف کاروائی کرتا ہو جس سے پاکستان ، ایران ، روس کو خطرات لاحق ہیں۔پاکستان نے مستقبل کے بڑے خطرات کا ادارک کرتے ہوئے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی وسعت دی ہے۔ گزشتہ برس 24ستمبر کو روس اور پاکستان کے درمیان فوجی مشقیں ان نئی تعلقات کی شروعات تھی۔ روسی فوجی پہلی مرتبہ پاکستان آئے تھے۔روس کی وزرات دفاع نے پاک۔روس مشترکہ فوجی مشقوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ عسکری مشقیں دونوں ممالک کے مابین دفاعی تعاون کو بڑھانے اور تعاون کو مزید مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہونگی۔گو کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی سرحدی کشیدگی اپنے عروج پر ہے لیکن اس کے باوجود روس کی جانب سے پاکستانی وزیر خارجہ کی ماسکو آمد کو دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسیوں میں توازن برقرار رکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ خاص طور پر پاکستان کو ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو دوبارہ دوہرانے سے گریز کرنا ہوگا اور خود انحصاری کی پالیسی پر گامزن ہونا ہوگا ۔ کیونکہ خود انحصاری و باہمی تجارت ہی پاکستان کے مسائل کا حل ہے۔ چین اس وقت پاکستان کے ساتھ سی پیک منصوبے پر کامیابی کے لئے اپنا بھرپور اثر رسوخ استعمال کررہا ہے ۔ لہذا پاکستان کو روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں اعتماد کی فضا کو ہر صورت برقرار رکھنا ہوگا ۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان کو اپنے مفادات کو عزیز رکھنا ہونگے ۔ پرائی جنگ کا خمیازہ بھگت کر اپنے گھر کو آگ لگا چکے ہیں ۔ پاکستان کے لئے یہ بھیانک تجربہ تھا جسے کبھی نہیں دوہرانا چاہیے۔