سال 2018 کو پاکستان دہشت گردی کے بڑے واقعات کی زد سے محفوظ رہا اور عالمی طور پر اس امر کا اعتراف کیا گیا کہ سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف منظم اور بھرپور کاروائیاں کرکے مملکت میں امن کے قیام کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ گو کہ ملک دشمن عناصر کی جانب سے ایسی سازشیں بھی کی جاتی رہیں جس سے فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر بڑے فسادات جنم لے سکتے تھے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑی جانقشانی کے ساتھ قیمتی قربانیاں دے کر وطن عزیز کو بڑے نقصانات سے بچایا اور انتہا پسندوں کی کئی بڑی کاروائیوں کو بروقت ناکام بنایا۔ صوبہ بلوچستان ،خیبر پختونخوا اور سابق فاٹا میںپاکستانی سیکورٹی فورسز نے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے خلاف موثر کاروائیاں کرکے وزیر ستان کو عام افراد کے لئے کھول دیا ہے اور جب عالمی نشریاتی ادارے کے خصوصی نمائندے بغیر کسی حفاظتی انتظامات کے ساتھ میرانشاہ جیسے علاقے میں مارکیٹوں میں پھر رہے تھے تو روز وشب پاکستانی افواج کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے مخصوص عالمی نشریاتی اداروں نے ریاست کے خلاف ہر وقت الزامات کی تسبیح تھامے رکھی ہوئی تھی ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب ریاست اور ان کے اداروں کے خلاف من گھڑت و اشتعال انگیز رپورٹ شائع نہ ہوتی ہو۔ پاکستان کے خلاف اب بھی جھوٹے و من گھڑت بیانات دینے والوں کے خصوصی انٹرویو نشر کئے جاتے ہیں۔ ریاست مخالف جلسوں ، ریلیوں اور دھرنوں کی خصوصی کوریج کرکے پاکستان کے خلاف بھرپور منفی مہم چلائی جاتی جس سے پوری دنیا میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ۔ تاہم جب انہی معتصب عالمی نشریاتی اداروں کے نمائندوں نے سیکورٹی کے بغیر وزیر ستان کا دورہ کیا توبالاآخر کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسزنے حقیقی معنوں میں دہشت گردوں کی جنت کہلانے والے علاقے کو پاک کردیا ہے۔ چیک پوسٹوں پر قانون نافذ کرنے والوں سے متعلق جس قسم کا منفی پروپیگنڈا کیا جاتا تھا اس پر بھی انہیں تنقید کا موقع نہ مل سکا ۔ چیک پوسٹوں پر تلاشی و دیگر معاملات پر پختون قوم و عوام میں بد گمانیاں پیداکرنے والوں کو بالاآخر تسلیم کرنا پڑا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان علاقوں میں ریاست کی رٹ قائم کردی ہے جہاں کبھی حکومت کی رٹ قائم نہیں تھی ۔
یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کے لئے سیکورٹی فورسز کو زبردست خراج تحسین اور قربانیاں دینے پر اہم کردار ادا کرنے پرتسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ملک دشمن عناصر کی جانب سے بے امنی اور شدت پسندی کے ساتھ نام نہاد قوم پرستی کی تحریکوں اور پڑوسی ممالک کے پراکسی وار کی وجہ سے متعدد مسائل کو مکمل ختم کرنے میں اس لئے وقت لگ رہا ہے کیونکہ عالمی قوتیں پاکستان میں امن کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں اور پاکستان کی سرحدوں پر پڑوسی ممالک میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کی وجہ سے انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لئے کچھ دشواریوں کا سامنا ہے۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان تن و تنہا عالمی پراکسی وار اور ملک دشمن عناصر کے خلاف نبر الزما ہے اور عوام کی طاقت و حمایت کے ساتھ امن کے دشمنوں کو شکست دینے میں مصروف ہے ۔ 2018میں گذشتہ برس کی نسبت 29فیصد دہشت گردی کے واقعات میں کمی ، سیکورٹی فورسز کی مسلسل کامیابیوں کا تسلسل ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا و سابق فاٹا علاقوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کو کنٹرول کرنے میں سیکورٹی فورسز کو بے مثال کامیابی ملی ہے ۔ تاہم بزدل عناصر وقتاََ فوقتاََ ایسی کاروائیاں کرتے رہے ہیں جس سے سیکورٹی فورسز اور نہتے عوام کو نقصان پہنچا۔
خاص کر بلوچستان جیسا حساس صوبہ کئی عالمی قوتوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اورنام نہاد قوم پرست عناصر کو ملک دشمن عناصر کی مسلسل فنڈنگ کی وجہ سے کمک حاصل ہے۔ جس کے رد کے لئے بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کے عزائم سے نئی نسل کو محفوظ رکھنے کے لئے ریاست کی مثبت کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ 2018میں پاکستان کے64اضلاع میں نسلی ، مسلکی اور مذہبی دہشت گردی کے262واقعات رونما ہوئے تھے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فارپیس اسٹڈیز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 262 واقعات میں 19خودکش حملے بھی شامل ہیں جن کے نتیجے میں595افراد جاں بحق اور1030افراد زخمی ہوئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ 2017کے مقابلے میں2018میں دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لئے کی جانے والی کوششوں میں سیکورٹی فورسز کو نمایاں کامیابیاں بھی ملیں ، رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات 2017کے مقابلے میں 2018میں 29فیصد کم ہوئے۔ اعداد و شمار سے خاص طور پر اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان کی سرزمین استعمال کی جاتی ہے اور دہشت گردوں نے سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ کالعدم طالبان پاکستان، کالعدم جماعت الاحرار اور داعش خراساں شاخ نے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے ” را” اور ” این ڈی ایس ” جیسی بدنام زمانہ ایجنسیوں کی سہولت کاری میں پاکستان میں 171حملے کئے۔ جس میں449افراد جاں بحق ہوئے ۔ جبکہ افغانستان کی سرزمین سے نام نہاد قوم پرستوں نے علیحدگی کی مذموم سازش کے تحت 80کے قریب پاکستان پر حملے کئے جس میں 96افراد کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ملک شمن عناصر کی جانب سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر دہشت گردی کے واقعات کا رجحان رہا ۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی کے11واقعات میں 50افراد جاں بحق اور 45افراد زخمی ہوئے۔ماضی میں فرقہ وارنہ بنیادوں پر بڑے دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے تھے جس میں بڑی تعداد میں قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا اور پاکستان کے خلاف نسلی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر پروپیگنڈا کیاجاتا رہا اور سیکورٹی فورسز کی کوششوں اور پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کو اپنایا جاتا تھا ۔ جس سے پاکستان کے خلاف عالمی برادری میں منفی چہرہ دکھانے کی کوشش کی جاتی تاہم سیکورٹی فورسز نے شدت پسندی کی ہر شکل کو ناکام بنانے کا عزم کیا ہوا ہے اور قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستان میں امن لانے کی بھرپور کوشش کی جیسے عوام کے تعاون سے کامیابی بھی ملی لیکن سیکورٹی فورسز کو دہشت گردوں کا براہ راست نشانہ بھی بننا پڑا جس سے سیکورٹی فورسز کے جانوں کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا ۔شدت پسندی کی اس لہر میں2018کو 136ایسے واقعات ہوئے جس میں براہ راست سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ۔ جب کہ سیکورٹی فورسز نے آپریشن ضرب عضب میں مسلح دہشت گردوں کا تعاقب جاری رکھا اور120مسلح شدت پسندوں کو جہنم وصال کیا ۔دہشت گردوں کے خلاف منظم کاروائیوں میں سیکورٹی فورسز نے کونے کدر ے میں چھپے سہولت کاروں اور بزدل دہشت گردوں کو بلوں سے نکال کر کیفر کردار تک پہنچانے میں برق رفتاری سے کاروائیوں کو جاری رکھا ۔ملک بھر میں دہشت گردوں سے22مسلح تصادم ہوئے۔ جبکہ31کاروائیاں دہشت گردوں کے خلاف کیں گئیں۔2017میں 524مسلح دہشت گردوں کو مختلف کاروائیوں میں ہلاک کیا گیا تھا ۔ جبکہ2018میں بھاگے ہوئے 120دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا۔
2018میں ملک بھرعام انتخابات منعقد ہوئے جس کی وجہ سے سیکورٹی اداروں کو بڑے چیلنج کا سامنا تھا ۔ پورے ملک میں وفاقی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بروقت و پرامن بنانے کے لئے سیکورٹی اداروں نے تمام حساس علاقوں میں عوام کی جان و مال و محفوظ بنانے کے لئے ہر ممکن وسائل بروئے کارلائے۔ انتخابی مہم میں24دہشت گردی کے حملوں میں 218افراد جاں بحق اور394زخمی ہوئے ۔تاہم جس قسم کی صورتحال سے پاکستان شکار تھا ۔ ان حالات میں بڑے پیمانے میں ہزاروں افراد کو جاں جانے کی خطرات درپیش تھے اور ملک دشمن عناصر کا منصوبہ تھا کہ کسی بھی صورت میں پاکستان میں انتخابات ملتوی کرادیئے جائیں لیکن قیمتی قربانیوں کے باوجود ملک دشمن عناصر کی سازش کو ناکامی ہوئی اور ملک میں عام انتخابات دہشت گردی کے سائے کے باوجود مجموعی طور پر ملک بھر میں پر امن ہوئے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیاسی جماعتوں اور کارکنان کو نشانہ بنایا گیا ۔ تاہم جس قسم کا حالات کا سامنا رہا ہے اس میں ان واقعات کے ہونے کے باوجود ملک میں انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوا اور یہی پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔جس نے پوری دنیا میں واضح پیغام دیا کہ سیکورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف پر عزم ہیں اور ایسی قوت کو پاکستان پر مسلط ہونے کی اجازت نہیں دیں گے جس سے دنیا میں پاکستان کا منفی تاثر جائے۔
2018کا سال کئی حوالوں سے چیلنج لئے ہوئے تھا ، جہاں پاکستا ن کے خلاف پڑوسی ممالک کی سرزمین شرانگیزی کے لئے استعمال کی جا رہی تھی تو دوسری جانب پاکستان کی سرحدوں پر پڑوسی ممالک کی جانب سے حملے بھی جاری تھے ۔131حملوں میں 111افراد جاں بحق اور290 زخمی بھی ہوئے ۔ خاص طور پر بلوچستان کو دہشت گردی کا خصوصی نشانہ بنانے کی عالمی سازش عروج پر تھی جہاں دہشت گردی کے حملوں میں 354افراد جاں بحق ہوئے ۔ جو ملک بھر میںدہشت گردی میں جاں بحق ہونے والے افراد کی کل تعدادکا59فیصد رہے۔ کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے ” را ” اور این ڈی ایس کی ملی بھگت سے نام نہاد قوم پرست کی سہولت کاری میںچینی سفار کاروں اور چینی کارکنان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔ چینی قونصل خانے کا ماسٹر مائنڈ کابل میں سرکاری عمارت میں مسلح جنگجوئوں کے حملے میں اپنے تین دہشت گردی ساتھیوں کے ساتھ ہلاک ہوا جس سے پاکستان کے اس الزام کی توثیق ہوئی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان مخالف دہشت گردی استعمال کرتے ہیں۔ سرکاری عمارت میں نام نہاد قوم پرست جنگجو کی ہلاکت ثابت کرتی ہے کہ ملک دشمن عناصر کو پڑوسی ممالک اپنے مذموم مقاصد کے لئے مسلسل استعمال اور فنڈنگ کرتے رہتے ہیں۔
ملک میں اس وقت معیشت کی بہتری کی ضرورت سب سے زیادہ ہے اور اس مقصد کیلئے تمام توجہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی نظرثانی رپورٹ پہ لگی ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں مثبت پہلو کا انحصار کالعدم جماعتوں سے متعلق ریاستی پالیسی پر ہے۔پاکستان خطے میں امن و امان کے قیام کے لئے اپنے مینڈیٹ کے مطابق بھرپور کردار ادا کررہا ہے ۔ کیونکہ افغانستان میں جاری جنگ کی وجہ سے پاکستان کو امن و امان کے مسائل کا زیادہ سامنا ہے اس لئے پاکستان 2018کے بعد2019میں قیام امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو مزید تیز اور منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔منی لانڈرنگ کے خلاف پاکستانی ادارے مربوط حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے چاہتا ہے کہ عالمی ادارے کی جانب سے مزید پابندیوں سے خود کو باہر نکال سکے ۔ لیکن اس وقت پاکستان کو معاشی معاملات میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ پاکستان معاشی مسائل سے باہر نکلنے کے لئے دوست ممالک سے مسلسل قرض لینے پر مجبور ہے اور کوئی معاشی پالیسی اور تجربہ نہ ہونے کے سبب نئی حکومت کو دشواریوں کا سامنا ہے تاہم سفارتی محاذ پر پاکستان ، مسلم اکثریتی ممالک کا اعتماد حاصل کی کوشش کررہا ہے اور اس میں فی الوقت خاطر خواہ کامیابی بھی مل رہی ہے۔ پاکستان نے خارجہ پالیسی میں واضح و دو ٹوک موقف اپنایا ہوا ہے کہ وہ اب پرائی جنگ کا کبھی حصہ نہیں بننا چاہے گا ۔
اس پالیسی کے ساتھ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات کے ساتھ سرد مہری کی برف پگھلنے میں پاکستان کو سفارتی محاذ پر کامیابی ملی ہے۔گو کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے لیکن اس حوالے سے کئی تحفظات بھی سامنے آئے ہیں لیکن پاکستان اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ پاکستان کو امداد غیر مشروط مل رہی ہے۔ تمام باتوں سے قطع نظر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا پاکستان کے ساتھ رویہ دوبارہ بہتر ہواہے۔ متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کا د ورہ پاکستان اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ممکنہ دورہ نہایت خوش آئند ہے کہ پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں مسلم اکثریتی ممالک کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ سطح کے وفود نے، چین ، روس ، افغانستان ،سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، انڈونیشیا ، ملائشیا، ایران اور ترکی دورے کرکے جہاں پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں نئے دور کا آغاز کیا ہے اس سے خطے میں بھارتی عزائم کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ جس کا مظاہرہ امریکی ہ صدر ٹرمپ نے نئے برس کی پہلی ٹویٹ میں بھارت پر اپنے غصے اظہار کرتے ہوئے افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا عندیہ دیتے ہوئے پہلے مرحلے میں 7ہزار سے3ہزار فوجیوں کی واپسی کا اشارہ دیا ہے۔
امریکا ، افغانستان سے باعزت واپسی کی راہ بھی دیکھ رہا ہے تو دوسری جانب حل ہوتے مسئلے میں کابل انتظامیہ کی جانب سے متواتر مداخلت سے دنیا پر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ امریکا تو افغانستان کے مسئلے کا حل چاہتا ہے لیکن افغان میں مختلف گروپ نہیں چاہتے۔ پاکستان نے اپنے محدود وسائل کو استعمال کرتے ہوئے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ہمراہ افغان طالبان کے ساتھ امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی راہ ہموار کی ۔قطر میں ایلس ویلز کے بعد زلمے خلیل زاد کے ہمراہ دو اہم مذاکراتی دور کے بعد 09جنوری کو قطر میں ہونے والے چوتھے مذاکرات کابل انتظامیہ کی ضد اور امریکا کی جلد بازی کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگئے۔کیونکہ افغان طالبان کا امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا پہلا نقطہ یہی رہا ہے کہ کابل انتظامیہ کی اپنی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے افغان طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ مزاکرات نہیں کرے گی ۔ جس کے بعد امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کئے اور 2019کو خطے میں امن کے حوالے سے خصوصی اہمیت دی گئی ۔ خود امریکا نے تسلیم کیا کہ وہ جنگ کے زریعے افغانستان میں امن نہیں لا سکتے ۔
امریکا نے پاکستان کے کردار اور اہمیت کو تسلیم کیا اور بھارت سے مایوسی کے بعد پاکستان کے لئے نرم لب و لیجہ اختیار کیا ۔ پاکستان کے وزیر اعظم سے ملاقات کے لئے خواہش ظاہر کی ۔ جس سے خطے میں پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کا اعتراف سامنے آیا کہ خطے میں پاکستان کی مدد ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی دی ، اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ۔ مضبوط معاشی مملکت اس وقت قرضوں اور مسائل کا شکار بنی ۔ ان حالات میں افغانستان میں ایسے کسی ملک کا کردار ، جس کا زمینی حقائق سے کوئی واسطہ بھی نہیں ، قابل غور ہے کہ خطے میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو فروغ دینے والا ، موثر کردار کیونکر ادا کرسکتا ہے۔
امریکا کو نئے سیکورٹی معاہدے کے لئے کابل انتظامیہ کو شامل کرنے کے لئے عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ کابل انتظامیہ بدقسمتی سے بھارتی اشاروں پر ناچ رہی ہے ۔ امریکا کو بھی ادارک ہے کہ بھارت خطے میں امن کے لئے موثر کردار ادا نہیں کرسکتا ۔ اس لئے امریکا کو اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لئے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ قطر میں ہونے والا مذاکرات کا چوتھا دور نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ زلمے خلیل زاد8جنوری سے14جنوری تک ایک مرتبہ پھر امن مشن پر روانہ ہوچکے ہیں، اپنے مشن کا آغاز افغانستان سے کرچکے ہیں جس کے بعدبھارت ، چین اور پاکستان کا بھی دورہ کریں گے ۔ لیکن ان کی کوششوں کو کابل انتظامیہ کی عجلت و ضد نقصان پہنچا رہی ہے یا پھر امریکا دوہرے معیار کا مظاہرہ کررہا ہے۔ سعودی عرب میں مذاکرات منتقل کرکے دبائو بڑھانے کوشش کو افغان طالبان مسترد کرچکے ہیں۔ لہذا اس ضمن میں جو روٹ میپ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان پہلے مذاکرتی دور سے طے ہوا ہے اس کو سبوتاژ کرنے کے بجائے اعتماد سازی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔2018میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود قیمتی جانوں کا نقصان بھی برداشت کیا ہے ۔
تاہم وزیرستان میں عام افراد کی آزادنہ نقل وحرکت کے بعد ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے اور کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین کو استعمال نہ کرنے کی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے تو ان تمام زمینی حقائق کو کابل انتظامیہ اور امریکا کو سمجھنا ہوگا کہ40 برسوں کی جنگ میں سوائے عوام کے جان و مال کو نقصان ملنے کے علاوہ ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اپنی ضد و فروعی مفادات کو پس پشت ڈال کر خطے میں امن دشمنوں کے خلاف مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کو مزید کامیاب بنانے کے لئے خطے کے تمام ممالک کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ کابل انتظامیہ ، امریکا کے زیر اثر ہے ۔ اس لئے مذاکرات کسی ضد کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ امریکا کی امداد و فوجی طاقت کی وجہ سے کابل میں ان کی عمل درآری ہے ۔ بے جا ضد سے خطے کے عوام کو نقصان ہی ہوگا ۔ کابل انتظامیہ کو امن مذاکرات دوبارہ سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔افغان صدر کے خصوصی ایلچی عمر دائودزئی نے پاکستان کے کردار کو سراہاتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان کے بغیر خطے میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ پاکستان مثبت کردار ادا کرتا رہا ہے۔ امن کے لئے افغانستان کا اعتراف دہشت گردی کے خلاف جنگ میںکامیابی کا اعتراف ہے۔