حکومت ابھی سکیورٹی پالیسی پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے تیار کردہ نئی سکیورٹی پالیسی کو منظور نہیں کیا جا سکا۔
کیوں کہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے نزدیک ہونے والے خودکش حملہ نے ایک نئی صورت حال کو جنم دیا تھا۔ سانحہ بنوں گیریڑن ،کراچی میں پولیو کے تین کارکنوں کا قتل۔ کوئٹہ کے قریب زائرین کوبس دھماکے سے اڑانا۔ ملک میں دہشت گرد قوتیں پوری توانائی سے اپنے وجود کا احساس دلا رہی ہیں۔
ان واقعات کے بعد طالبان کے بعض قائدین نے ایک طرف بامعنی مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور اس کے ساتھ ہی بنوں چھاؤنی پر حملہ کو اپنے لیڈر ولی الرحمن کے قتل کا بدلہ قرار دیا۔ انہوں نے حکومت کو ناکارہ کہتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
اگر حکومت اپنی اتھارٹی اور اختیار ثابت کرے تبھی اس سے بات چیت ہو سکتی ہے۔ اس دوران طالبان کی طرف سے یہ دھمکیاں بھی موصول ہو گئی ہیں کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں مزید حملے بھی کئے جائیں گے۔اس دوران حکومت اپنے طرز عمل سے مسلسل یہ ثابت کر رہی ہے کہ وہ معاملات کو سمجھنے اور انہیں بہتر بنانے کی سوجھ بوجھ اور قوت سے عاری ہے۔ بار بار یہ اعلانات سامنے آنے کے باوجود کہ انتہا پسندوں کو عام شہریوں کا امن غارت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، حکومت کی طرف سے طالبان کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی ہے۔
اسی طرح طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پرجوش حمایت کرنے والی اپوزیشن پارٹیاں جن میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سرفہرست ہیں، نئے حملوں اور دھماکوں کی مذمت ضرور کرتی ہیں لیکن اگلی ہی سانس میں ان حملوں کی دلیل بھی لائی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک یہ صورت حال محض اس لئے پیدا ہو رہی ہے کیوں کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔ ان معاملات پر سیاست سیاست کھیلنے کا وقت اب ختم ہوا، یہ نہ ہو کہ مذاکرات کی دیگ کے لئے ایندھن بھی میسر نہ ہو اور حالات پر بھی حکومت کی گرفت نہ رہے۔
Pakistan Terrorism
اپوزیشن پارٹیوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ ان مسلح قوتوں کے ساتھ مذاکرات کس بنیاد پر ہو سکتے ہیں جن کے ہاتھ ملک کی سکیورٹی فورسز کے جوانوں اور شہریوں کے خون سے رنگے ہیں۔ جو مسلسل ملک کے آئین اور حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ جن کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں میں ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اس ملک کے عوام کو پولیو جیسی مہلک بیماری سے نجات دلانے کے لئے ویکسین مہم پر بھی حملہ آور ہیں۔ خود عمران خان اس مہم کی حمایت کرتے ہوئے اس مقصد کے لئے ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اس کے باوجود نہ طالبان اپنا رنگ ڈھنگ بدل رہے ہیں اور نہ اپوزیشن ان کی کھلم کھلا حمایت سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جو اپنے طرز عمل سے مسلسل یہ ثابت کر رہی ہے کہ طالبان جیسی انسان دشمن قوت اس کی بے طاقتی کے بارے میں جو دعوے کر رہی ہے، شاید وہ درست ہی ہیں۔سات ماہ گزرنے کے باوجود وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف یہ طے نہیں کر سکے کہ طالبان سے کیوں کر نمٹا جائے۔ یہ حکومت دہشت گردوں کو سزائیں دلوانے کے لئے قانون سازی میں ناکام رہی ہے چوں کہ وہ ابھی تک یہ طے نہیں کر سکی کہ گرفتار دہشت گردوں کو ان کے جرائم کی سزا دلوا کر نشان عبرت بنانا ہے یا مذاکرات کے نام پر انہیں گلے لگا کر معاف کر دینا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق چند ماہ قبل ایک ڈرون حملہ میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر طالبان نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ انہوں نے اپنے لیڈر کے خون پر مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہوئے ریاست اور حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اپوزیشن رہنماؤں کے علاوہ حکومت کے وزیر داخلہ نے بڑھ چڑھ کر حکیم اللہ محسود پر حملہ کی مذمت کی اور امریکہ کو پاکستان میں بحالء امن کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا تھا۔
اس کے بعد بھی حال ہی میں وزیر داخلہ ایک طرف یہ کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کی کنجی نہ جانے کس کے پاس ہے تو دوسری طرف یہ بتاتے رہے ہیں کہ 9/11 کے بعد پوری دنیا محفوظ ہو گئی ہے لیکن پاکستان غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ تاہم وہ ہمیشہ کی طرح یہ بتانے سے قاصر رہے ہیں کہ پاکستان کو غیر محفوظ کرنے میں بیرونی عوامل کے علاوہ حکمرانوں کی بے عملی، نالائقی، بے حسی اور قوت فیصلہ میں کمی کا بھی کچھ عمل دخل ہے کہ نہیں ہے۔ کون اس امر پر حیران نہیں ہو گا کہ طالبان جیسی دہشت گرد بے نشان قوت تو اپنے لیڈر کی ہلاکت پر مذاکرات مسترد کرتی ہے لیکن حکومت پاکستان کے پاس تو اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ تین روز میں 50 سے زائد شہریوں اور فوجیوں کو شہید کرنے والوں کو دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر سکے۔
پاکستان میں اس لئے تحفظ فراہم نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہاں پر سکیورٹی کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے۔ حکمران مسلسل یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ حالات ازخود بہتر ہو جائیں گے اور ”امن” بحال ہونے کی صورت میں وہ کریڈٹ لینے کے لئے خود کو پیش کر دیں گے۔ اس قسم کی بے حس حکومت کی موجودگی میں حالات میں تبدیلی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ ملک کے سب اخبار اب یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت اپنے آپشنز واضح کرے اور یہ اعلان کرے کہ کیا مذاکرات ہو رہے ہیں یا حکومت ناپسندیدہ عناصر کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہے لیکن حکومت کی طرف سے معاملہ بیان بازی سے آگے بڑھ نہیں پاتا۔ اب اس بات میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ طالبان مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ یا کم از کم وہ اس وقت تک حکومت سے بات نہیں کریں گے جب تک حکومت انہیں اپنی موجودگی اور طاقت کا احساس نہیں دلوائے گی۔
یہ احساس دلوانے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ فوجی کارروائی کا آغاز ہی کیا جائے۔ اس کے لئے سب سے پہلے حکومت کو ارادہ کی پختگی ظاہر کرنا ہو گی۔ موجودہ حکومت تو اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ ملک کی سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں افواج پاکستان میں بھی بے چینی پیدا ہو گی۔ ملک میں سیاسی حکومت کی موجودگی میں فوجی قیادت سیاسی فیصلوں کی منتظر ہو گی۔ کیا یہ انتظار غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میںہرطرف سانحات کی بناء پر ایک خوف کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ اسی صورتحال میں کیا یہ بیانات عام آدمی کی تسلی کے لئے کافی ہیں کہ وزیراعظم سے اہم شخصیات ملاقاتیں اور ملکی صورت حال پر ان میں ہم آہنگی موجود ہے۔ یہ طفل تسلیاں مشکل سامنے دیکھ کر آنکھ بند کرنے کے مترادف ہے۔ ملک کی سیاسی حکومت کو اپنے عوام اور افواج کی حفاظت اور ملک میں جمہوریت کی حفاظت کے لئے فوری اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔