دہشتگردانہ واقعات میں شدت کے حوالے سے پاکستان دہشتگردی سے متاثرہ ممالک، یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک ، میں بھی سرفہرست ہے۔ پاکستان کی قومی داخلی پالیسی ڈرافٹ 2013 ء سے 2018ء کے مطابق 2001 ء سے 2013ء کے دوران پاکستان میں 13 ہزار 7 سو اکیس دہشتگردانہ واقعات پیش آئے جو عراق میں اس مدت کے دوران پیش آئے واقعات سے بہت کم ہے۔ ان واقعات میں تقریباً 49 ہزار لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 5027 قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ تھے۔ مذکورہ ڈرافٹ کے مطابق گزشتہ دس سالوں میں دہشتگردانہ واقعات کی وجہ سے ملک کو 78 بلین ڈالر کا نقصان اْٹھانا پڑا جس سے ملک کے داخلی تحفظ ، انتہا پسندی ،دہشتگردی اور فرقہ پرستی سے لاحق خطرات کی تصویر سامنے آتی ہے۔ دہشتگردی پر تحقیق کرنی والی ایک امریکی ایجنسی کے اعدادو شمار کے مطابق 2012 میں پاکستان میں 1404 ، عراق میں 1271 اور افغانستان میں 1023 دہشتگردانہ حملے ہوئے جس کی رو سے بھی پاکستان سرفہرست رہا۔
حکومت نے ریڈ بْک کا 17 واں ایڈیشن جاری کر دیا ہے جس میں انتہائی مطلوب 123 دہشت گردوں کو شامل کیا گیا ہے اور پہلی بار ریڈ بک میں 2 خواتین کے نام بھی شامل ہیں جن کے سروں کی قیمت 5,5 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ اس ریڈ بک میں پہلے نمبر پر انتہائی مطلوب شخص مطیع الرحمن عرف صمد سیال ہے جبکہ دیگر میں زبیر، اکرم، امجد، علی رضوان وغیرہ شامل ہیں جبکہ جو دو خواتین ریڈ بک میں شامل کی گئی ہیںان میں طیبہ اور ماریہ شامل ہیں۔ دہشت گردی اس وقت پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ ہے۔ لیکن یہ کسی خاص ملک یا قوم کا مسئلہ نہیں ہے مگر جس انداز سے اس کو دنیا کے سامنے رکھا جا رہاہے اْس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ طاقتیں دہشت گردی کی آڑ میں مخصوص گروپوں کو فروغ دینا چاہتی ہیںتا کہ ان کو مناسب وقت پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
دہشت گردی کی جاری لہر سے معلوم پڑتا ہے کہ امریکہ بھی کچھ ”گروپوں” کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔اگر عالمی سطح پر اْن کوششوں کا جائزہ لیں جو اس کے انسداد کے حوالے سے کی جارہی ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مسئلہ تو اپنی جگہ پر ہے مگر اسے ختم کرنے اور جڑ سے اکھاڑنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ،وہ خود ایک نئے مسئلے کو جنم دے رہی ہیں۔ ایک مشہور مصرع ہے۔
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے ، جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گیکواگر معمولی تحریف کے ساتھ اس طرح پڑھیں کہ۔دہشت تو خود ہی ایک مسئلہ ہے ، دہشت کیا مسئلوں کا حل دے گی۔تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج دہشت کے نام پر ایک مختلف انداز کی دہشت گردی ہورہی ہے۔ اس میں حکومتوں کے علاوہ عالمی میڈیا بھی شامل ہے۔ دہشت گردی کا جو مفہوم عالمی بالخصوص مغربی میڈیا نے عوامی سطح پر عام کیا ہے وہ سراسر غلط اور تعصب پر مبنی ہے تعصب اس لیے کہ اس لفظ کے اندر بھرے زہر اور نفرت کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنا یاجا رہا ہے اسی لیے اس لفظ کا مفہوم اور اس کی تعبیر وتشریح بھی اس انداز سے کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا ہدف حاصل کیا جا سکے۔
حالانکہ مسلمان بھی یہ مانتے ہیں کہ دہشت گردی اسلام میں کسی بھی طرح روا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی دہشت گردی کو کسی طرح جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ دنیا کے تمام مسلمان اس معاملے میں یک زبان اور ہم خیال ہیں۔ اس لیے کہنا تو یہ چاہیے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے اور دہشت گردی کرنے والا کوئی بھی شخص کسی مذہب کا سچا پیرو کار بھی نہیں ہوسکتا۔ مسلمانوں نے ہر طرح سے اس کی مخالفت کی ہے با وجود اس کے ابھی تک عالمی میڈیا یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور اسلام دہشت گردی کو ہوا نہیں دیتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ عالمی میڈیا کے اس رویے سے وہ لوگ بھی جو دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اب بد ظن ہو کر کنارہ کش ہو رہے ہیں۔اس لیے ضرورت اس کی ہے کہ دہشت گردی کی تعبیر و تشریح چاہے جس انداز سے کریں ،اس میں مذہب اور کسی قوم کو نشانہ بنانا سراسر غلط ہوگا۔
Islam
تاریخ شاہد ہے کہ دہشت گردی کی پہلی اینٹ خود برطانیہ نے رکھی۔ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور اسلام میں فرقہ بندی کی لکیرکب شوخ ہوئی اسکو سمجھنے کے لئے برطانوی جاسوس ہمفر کی یادداشتوں کا مطالعہ کرنا ضروری ہے کہ کس طرح برطانیہ نے خطہ عرب میں اپنے من پسند خاندانوں کو حاکم بنایا۔ اور کس طرح اسلام میں نئے فرقوں کی بنیاد رکھی گئی۔ بر طانیہ کے زوال کے بعد اس کی جگہ امریکہ نے لے لی تو اس نے مسلمانوں میں تفرقہ بندی کے بیج بونا شروع کردیئے۔ انسدا دہشت گردی کے لیے کوئی بھی مہم یا کوشش اْس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہے کیا؟ معاملہ یہ ہے کہ ابھی تک دہشت گردی کے خلاف جو مہم جاری ہے اس میں صرف مسلمانوں اور مسلم ممالک کو نشانہ بنا کر کیا جارہا ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو دہشت گردی ہے مگر منی پور اور آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دہشت گردی نہیں۔ انتہا پسند ہندو تنظیمیں جو بھی فتنہ پھیلائیں وہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح مقامی سطح پر جب معروف سیاسی جماعتیں اور محب وطن کہلانے والے گروپ اگر دہشت گردوں سے رابطہ کریں تو وہ درست سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی مخالف ان کا نام بھی لے لے تو وہ قابل گردن زدنی ہے۔ سچائی پر پردہ ڈالنے اور ایک حقیقت کو دو آنکھوں سے دیکھنے کی جب یہ حالت ہو گی تو ملک میں بھی بنائے جانے والے تما م قوانین دہشت گردی کو جڑ سے نہیں ختم کر سکتے اور نہ کوئی مہم کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ فتنہ پھیلانے والے تمام لوگوں کو بلا امتیاز مذہب و ملت دہشت گرد کہا جائے اور ایک ہی ترازو میں تو لا جائے۔
اگر واقعی پوری دنیا سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو دنیا کے تما م لوگوں کو ایک نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔اْن کے انسانی اور بنیادی حقوق کی نگہبانی کرنی ہوگی اور ہر طرح کے استحصال سے دنیا کی تما م اقوام کو بچانا ہوگا۔ تبھی دہشت گردی کو جڑ سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب اس پیمانے پر طاقتور ممالک اور اقتصادی طور پر مضبوط میڈیا کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔اگر ایسا ہوجائے تو دیکھتے ہی دیکھتے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ موجودہ عہد میں دہشت گردی اْتنا بڑ امسئلہ نہیں ہے جتنا کہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہاہے۔
افراتفری اورہنگامہ آرائی کے ماحول میں اصل دہشت گردتو بچ جاتے ہیں اور جو معصوم اور بے گناہ ہیں وہ مورد الزام ٹھہرتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی تما م کوششوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بے رحم حکمران آئے اور تاریخ میں امر ہوجائے تاکہ وطن عزیز میں آئے روز کسی نہ کسی گھر میں صف ماتم بچھنے کے بجائے ایک ہی دفعہ اجتماعی ماتم کر لیا جائے۔ سفاکیت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لیکن اجتماعی خیر کے لیے کبھی کبھی ایسے کام بھی کرنے ضروری ہوجاتے ہیں جو عام حالات میں غیر انسانی تصور کیے جاتے ہیں۔