کہتے ہیں کہ لوگوں کی جان ومال کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی زمہ داری ہے اور خصوصاً جب دعوے جمہوریت کہ کیئے جائیں تو پھر تو اور بھی زیادہ یہ زمہ داری حکمرانوں کے کندوں پے آئد ہوتی ہے لیکن کیا کروں میرے اس دیس کا باوا آدم ہی نرالہ ہے جس کی لاٹھی اُسی کی بھینس کا قانون یہاں برپا ہے تین روز قبل اچانک یہ پُر مسرت خبر سننے اور دیکھنے کو ملی کہ افواج پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے منصوب فوجی آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔
محب وطن دیگر اہلیان پاکستان کی طرح اس خبر کے سنتے ہی میرا دل بھی خوشی سے باغ باغ ہوگیا اور دل نے یہ کہا کہ چلو دیر آئے درست آئے اب ہی میری اس دھرتی سے میری دلیر افواج شرپسندوں کا قلع قمع کردے گی اور اب میرا ملک ایک بار پھر امن کا گہوارا بن جائے گا خیر انشاء اللہ وہ دن تو دور نہیں کہ جب افواج پاکستان دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن کو جلد از جلد کامیاب کرکے دہشت گردوں کے قبضہ میں شمالی پہاڑی علاقہ جات کو واگزار کروائے گی،انشاء اللہ ،پنجاب میں بھی آپریشن کیا گیا تاہم یہ زرا (وکھری ٹائپ) کا آپریشن تھا اُدھر افواج پاکستان تو دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں آپنے اعصاب لڑا رہی ہے۔
ادھر پنجاب پولیس کے بہادر شیر جوان ملک کو بیرونی ممالک میں تمغہ بدنامی و رسوائی کے ایوارڈ دلوانے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھ رہے ماڈل ٹاون سانحہ تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شائد ہماری قوم بھول ہی جائے کیونکہ بد قسمتی سے اس قوم کا حافظہ بے حد کمزور ہے یہ اپنے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی اور ظلم کو امر ربی سمجھ کر بھول جاتی ہے لیکن قاریو!یاد رکھیں بطور مسلمان ہمارا مذہب ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ظلم کو ہوتا دیکھ کر اگر آپ بھی اپنے لب سی لیں گے تو ظالم اور آپ میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
شیرجوانوں کو آرڈر ملا کہ آپ فوری طور پے ماڈل ٹاون میں طاہر القادری کی رائشگاہ کے آگے اور اطراف میں پڑی رکاوٹوں ،تجاوزات کو ہٹائیں لیکن یہ معاملہ جسے ہمارے حکمران اپنی بے شرمی اور بے حیائی کو چھپانے کے لئے ایک معمولی واقعہ قرار دے رہے ہیں اُن کی نظر میں ٹھرا یہ معمولی واقعہ بھی آٹھ قیمتی جانوں کو لقمہ اجل بنانے کا سبب بنا ،شیر جوانوں نے اس طرح سے نہتی عوام پے اپنے ہاتھ صاف کیئے کہ بس (رہ رب دا ناں )ناکسی کی عمر کا لحاظ کیا گیا نا کسی کی چادر ،چاردیواری اور ناہی داڑھی کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔
جس پولیس کے بہادر اہلکار کے ہاتھ جو لگا جیسے لگا اُس کو پھر (ماں )یاد دلادی پولیس نے اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا لوگوں پے سیدھی گولیاں برسائیں اور اپنوں نے ہی اپنوں کو مارا اور وہ بھی بغیر کسی جرم کہ بغیر کوئی دفعہ لگائے قانون نافذ کرنے والے ہی قانون شکن بنے اور سب کے سامنے یعنی کہ بڑے (ڈھڑلے ) سے قاریو! چند لمحوں کہ لیئے یہ بھول بھی جائیں کہ پولیس نے زیادتی کہ تو بھی آپ یہ سوچیں کہ احتجاج کس ملک میں نہیں ہوتا وہ کون سی قوم ہے جو اس دنیا میں مکمل طور پے پُر امن طریقے سے اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔
اس واقعہ کہ بعد ہماری انتظامیہ اور حکمرانوں نے اپنی ٹھٹائی اور بے شرمی کی جو مثال قائم کی وہ بھی قابل انتہائی تعریف ہے خود کو خادم اعلیٰ گرداننے والے چیف منسٹر پنجاب نے کہا کہ اُن کو سرے سے اس سارے واقعہ کا پتا ہی نہیں جبکہ نئے نویلے آئی ،جی نے یہ کہہ کر اپنی جان بخشی کروائی کہ اُن نے اس سارے واقعہ کے رونماء ہونے کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھالہ اسی طرح سی،سی،پی،او لاہور اورآئی ،جی آپریشن نے تو حد ہی کردی یہ کہہ کر کہ اسلحہ کا استعمال پہلے اُن کی پولیس نے نہیں کیا بلکہ اُن کے جوانوں پے طاہر القادری کے کارکنوں نے گولیاں برسائیں یہ وہ چھوٹ ہے۔
Rana Sanaullah
جس پے خود جھوٹ بھی شرمندہ ہے کہ اتنا بڑا جھوٹ اسی طرح پنجاب کے وزیر قانون محترم اعالی مقام رانا ثناء اللہ نے بھی جھوٹ اور مذاق کرنے کے اپنے قائم کردہ تمام سابقہ ٹاپ ٹین ریکارڈ توڑ دیئے ہیں اور کہا کہ یہ اموات کارکنوں اور مظاہرین کی اپنی ہی گولیوں سے ہوئی ہیں دوسری جانب پنجاب پولیس کے سامنے اور شیرجوانوں کے کہنے پر املاک اور خصوصاً طاہر القادری کی راہشگاہ کے آس پاس کھڑی گاڑیوں پے اپنی بہادری اور دلیری کی تاریخ رقم کرنے والے شخص کی شناخت( گلو بٹ ) کے نام سے ہوچکی ہے اور یہ بھی پتہ چلا ہے۔
لمبی موچھوں والی یہ سرکار اپنے علاقوں کے مختلف تھانوں کا ٹاوٹ ہے تاہم پولیس نے اس کے خلاف تاحال کوئی بھی قانونی کاروائی نہیں کی اور کرے بھی کیونکر یہ اُن کا حصہ ہے اور اپنے پٹی بھائی خواہ وہ ٹاوٹ کی صورت میں ،رضاکار ہو یہ بھر مخبر ہی کیوں نا وہ تو قانون سے بالا تر ہیں اُن پے کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا ،خادم اعلیٰ ،آئی جی پنجاب ،وزیر قانون پنجاب اور دیگر پنجاب کے کرتا دھرتا سے ملک خصوصاً پنجاب بھر کی عوام یہ دست بستہ عرض کررہی ہے۔
Law
اس سانحہ میں جو آٹھ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا جس میں ہماری دو بہنیں بھی شامل ہیں آپ اُن کے بارے میں یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ مرنے والے ان تمام آٹھوں افراد نے خود کشی کی ہے اور الٹا ان پے ہی قانون کا نفاذ کیوں نہیں کرتے کیوں نا ان ہی کے خلاف مقدمات درج کیئے جائیں ایسا کرنے سے ناصرف آپ کی روح کو تسکین ملے گی بلکہ نا رہے کا بانس اور نا بجے گی بانسری۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر۔
تحریر : چودھری فتح اللہ نواز بُھٹہ ضلع اوکاڑہ 0300.6692536.18.06.2014