18 ستمبر 2015 کو بڈھ بیر ایئر بیس پشاور پر 14 دہشت گردوں نے حملہ کیا تاکہ وہ بڈھ بیر کالونی کے نہتے بے گناہ لوگوں کوخون میں نہلا سکیں کیپٹن اسفند یار بخاری 102 برگیڈ پشاور میںG-3 تھے ان کی ڈیوٹی اس وقت نہیں تھی مگر جب وطن نے پکارا تو وہ ملک دشمنوں پر قہر خداوندی بن کر گرے اور جرات و بہادر ی کی داستان رقم کر دی ۔ کیپٹن اسفند یار بخاری کی 27 سالہ زندگی اور شہادت پر خصوصی تحریر ۔آپ 14اگست 1988ء کو اٹک شہر میں پیداہوئے ۔آپ کے والد محترم ڈاکٹر سید فیاض بخاری ضلع اٹک کے معروف پیتھالوجسٹ ہیں ۔آپ کے بڑے بھائی سید شہریار بخاری انجینئر ہیں اور آج کل بر طانیہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعدریسرچ کر رہے ہیں۔ جبکہ برادرِ خورد سید حسان بخاری میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔آپ کی مادر مہربان اٹک شہر میں عرصہ دراز سے خواتین کو درس قرآن دے رہی ہیں ۔آپ نے ابتدائی تعلیم APSاٹک میں حاصل کی۔ جب آپ کلاس دوم میں تھے تو کلا س میں بلیڈ لگنے سے آپ کی انگلی زخمی ہوگئی۔ کلاس کے بچوں نے شور مچایا کہ اسفند کا خون نکل رہا ہے۔
اسفند نے اس تکلیف کی حالت میں اپنی کاپی پر اپنے خون سے PAKلکھا۔ اتنے میں میڈم زرینہ آگئیں اور انہوں نے ٹشو پیپر سے خون بند کرنے کے لیے اسفند کی انگلی پکڑ لی ۔ اسفند نے اس در د کی حالت میں میڈم سے کہا کہ میڈم مجھے Pakistanتو پور ا کر لینے دیتیں۔ پھر اُس نے 18ستمبر 2015ء کو دہشت گردوں کے خلاف اپنے خون سے لفظ Pakistan پور ا کیا ۔
پھر آپ فضائیہ کالج کامرہ چلے گئے ۔جہاں پر آپ کی Academicsٹاپ پر تھیں ۔آپ یہاں پر ایک اچھے کھلاڑی اور ایک بہترین مقرر کے طورپر پہچانے جاتے تھے ۔ آپ کو کلاس ٹیچر میڈم امتیاز نے منی کمپیوٹر کا خطاب دیا ۔آپ نے 7thکلاس میں ٹاپ کیا اور اُسی سال کیڈٹ کالج حسن ابدال کے لیے منتخب ہو گئے۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں اُن کی جملہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آگئیں ۔F.Scتک پہنچتے پہنچتے وہ کیڈٹ کالج کے Legendبن چکے تھے ۔انہیں” نایاب طالب علم” کے خطاب سے نوازا جا چکا تھا ۔کیڈٹ کالج میں آپ جناح ونگ کے کمانڈر،بیالوجی کلب کے صدر ،ہاکی کے کپتان،شطرنج کے چیمپیئن، بلند پایہ مقرر،بے مثل گھڑ سوار، فٹ بال ، ڈرافٹ اور باسکٹ بال کے کھلاڑی رہے۔کالج میگزین ”ابدالین ” کے معاون ایڈیٹر اور مسلسل پانچ سال بورڈ آف ایڈیٹر زاور رائیٹرز کے ممبر رہے ۔اس دوران میں آپ کی 9تحریریں میگزین کا حصہ بنیں جو کہ ایک ریگارڈ ہے ۔آپ کی لاجواب قیادت میں جناح ونگ نے چیمپیئن شپ بھی جیت لی ۔ آپ کیڈٹ کالج حسن ابدال کی تاریخ میں واحد ہاکی کے کھلاڑی ہیں جو پنجاب ہاکی U-18کے کیمپ کے لیے منتخب ہو ئے۔
آپ کی نہایت شاندار کارکردگی پر ضلع کونسل اٹک میں اپریل2006میں اٹک فیسٹیول میں انہیں” فخر اٹک ”کے باضابطہ خطاب سے نوازا گیا اور اُن کی تصویر اٹک کی لائبریری میں آویزاں کر دی گئی تاکہ ضلع اٹک کے طلبہ میں جذبہ مسابقت نمو پائے۔بے شک یہ کسی” سترہ سالہ طالب علم” کے لیے بہت ہی عزت و توقیر کی بات تھی ۔اسفند نے F.Sc اعلیٰ نمبروں میں کی تو تمام گھر والوں کا خیال تھا کہ اسفند میڈیکل کالج جائن کر ے گا مگر اسفندیا ر بخاری نے پاکستان آرمی میں جانے کا اٹل فیصلہ کیا ۔وہ اکثر مسکرا کر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کی بہادر فوج کو میری ضرورت ہے۔ ہمارا ملک دہشت گردی کی جنگ میں پھنسا ہو ا ہے۔ ان مشکل حالات میں میں دفاع وطن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔پھر وہ میڈیکل چھوڑ کر PMAکاکول چلے گئے ۔
اُن کا عسکری کیریئر مختصر مگر تابناک رہا ۔نومبر2006میںPMAکاکول کو جائن کیا۔ بے مثال کارکردگی پر تھرڈ ٹرم میں کار پورل اور فورتھ ٹرم میں بٹالین سینئر انڈ ر آفیسر بنا دئیے گئے ۔اسی دوران میں آپ نے پیرا گلائیڈنگ اور پیرا شوٹنگ کے کورسزبھی کیے ۔ آپ کو ٹرم کمانڈر میجرصفر خان نے آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں سے متاثر ہو کر ”جنرل رومیل” کا خطاب دیا۔آپ نے ہاکی اور تیراکی میں میڈل حاصل کیے۔ آپ کی کپتانی میں طارق کمپنی نے ہاکی چیمپیئن شپ جیت لی ۔وہاں آپ نے گھڑ سواری میں بھی شیلڈ بھی حاصل کی ۔آپ ایک بہترین باکسر تھے اور آپ نے اپنا مقابلہ نہایت آسانی سے جیت لیا ۔
18اکتوبر 2008کو ملٹری Subjectsمیں PMAکاکول کو ٹاپ کرنے پر War Tacticsمیڈل ملا۔25اکتوبر 2008کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کے سب سے بڑے اعزاز ”Sword Of Honour” سے سرفراز ہو ئے۔پھر آپ نے بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ11-FF(فرسٹ پٹھان)جائن کی اور بہاولپور چلے گئے۔2009میں آپ ایک جنگی مشق ”الصمصام 3-”کے سلسلے میں سعودی عرب گئے۔آپ کی بہترین کارکردگی پر گورنمنٹ آف سعودی عریبیہ نے آپ کو گولڈ میڈل سے نوازا۔2010ء میں آپ نے لیفٹیننٹ ٹو کیپٹن امتحان میں پاک آرمی میں” اول پوزیشن” حاصل کی ۔2011ء میں آپ کوئٹہ میں انفنٹری کورس کے لیے گئے وہاں آپ نے پاک آرمی کے لیے ایک عسکری آلہ ”Target Acquisition Instrument” ایجا د کر کے واہ فیکٹری بھیجوایا۔2013میں آپ U-Nمشن پر لائبیریا گئے اور وہاں اقوام متحدہ امن میڈل سے نوازے گئے ۔2015ء میں نوشہر ہ سے مڈ کیرئیر کورس میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی اور 102گریڈ پشاور میں G-3کپتان پوسٹ کر دئیے گئے۔
APSکے سانحہ کے بعد سے آپ کافی مضطرب تھے۔ اکثر کہا کرتے کہ مجھے آرمی پبلک کے معصوم بچے سونے نہیں دیتے ۔وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم پر کس جرم کی پاداش میں حملہ ہوا ۔پھر کہتے کہ اگر اللہ نے مجھے موقع دیا تو میں آرمی پبلک سکول کا بدلہ ضرور لوں گا۔ 18ستمبر 2015ء بروز جمعہ بڈھ بیر ایئر فورس کیمپ پشاور پر بزدل دہشت گردوں نے حملہ کیا اور مسجد میں 18نمازیوں کو شہید کر دیا ۔جب کیپٹن اسفند یا ر وہاں پہنچے تو 28لوگ شہید اور 29زخمی ہو چکے تھے ۔آرمی کمانڈر میجر حسیب زخمی ہو کر سی ایم ایچ جا چکے تھے ۔کیپٹن اسفند یار نے شدید فائرنگ میں خود جا کر ریکی کی اور صورتحال کو جانچا ۔QRFکی کاروائی کو منظم کیا اور رضاکارانہ طور پر خود کو کمانڈ کے لیے پیش کردیا۔ جبکہ یہ اُن کی ڈیوٹی نہ تھی ۔پھر 12پنجاب اور 15بلوچ کے جوانوں کی قیادت سنبھالی ۔ان کے ہمراہ آفیسرز اور جوانوں نے بار بار آپ کو عقب میں رہنے کی تلقین کی۔ مگر آپ اس شدید فائرنگ میں گاڑی سے کود گئے اور دہشت گردوں پر چڑھ دوڑے ۔آپ کی شجاعت اور دلیری دیکھ کر دہشت گردو ں کے حوصلے پست ہو گئے ۔آج اُن کی خودکش جیکٹیں بھی نہیں پھٹ رہی تھیں اور اپنی جان بچاتے پھر رہے تھے۔
کبھی ایک بیرک میں اور کبھی دوسری بیر ک میں۔ آج ایک شیر نے ان گیدڑوں کو آگے لگا لیا تھا ۔اسفند یار نے بذات خود پانچ دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا۔ اُن کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُترنے والے وہ دہشت گرد تھے۔ جنہوں نے نمازیوں کو شہید کیا تھا۔آپ نے بہترین قیادت کی اور کمانڈوز کے آنے سے قبل ہی آپریشن ختم کر کے جرأت و بہادری کی نئی داستان رقم کر ڈالی۔روم کلیئرنس کے دوران آخری دہشت گرد کو موت کی راہ دکھائی مگر اُس کی چلائی ہوئی گولی ان کے سینے پربائیں جانب لگی اور یوں وہ اللہ کی راہ میں بڑی بے جگری سے لڑتے ہو ئے اپنے وطن عزیز پر قربان ہو گئے۔ اُن کے اس کارنامے کی بدولت دہشتگرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے ۔اُن کی اس کاوش جمیلہ سے سینکڑوں ایئرفورس کے لوگوں کی جانیں بچ گئیںاور کپتان اسفند نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ قوم کو APSسے بھی کہیں بڑے سانحے سے بچا لیا ۔
بے شک” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ”۔ شہید کے جسد خاکی کو 32گھنٹے کے بعد CMHسے اُن کے گھر لایا گیا تو پورا اٹک شہر شہید کے دیدار کو اُمڈ آیا۔ جب چہرے سے کپڑا ہٹایا گیا تو سبحان اللہ !چہر ے پر دلفریب فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور خون رواں تھا ۔جو رکنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ پاک آرمی اور اٹک شہر کے سینکڑوں مردو زن اس کے چشم دید گواہ ہیں ۔اُن کا جنازہ اٹک کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا ۔اُس دن پورا اٹک شہربند تھا۔ جنازے میں دیگر شہروں سے بھی سینکڑوں لوگوںنے آکر شرکت کی۔ جب انہیں سپرد خاک کر نے لگے تو اُس وقت اُن کی شہادت کو 36گھنٹے گزر چکے تھے تو اُن کا چہرہ ایک بار پھر دکھایا گیا تو خون اُس وقت بھی بہہ رہا تھا ۔آخری مرتبہ بر یگیڈیئر کامران صاحب نے شہید کے بہتے ہو ئے خون کو پونچھااور پھر انہیں سپر د خاک کر دیا گیا ۔اے پاکستان آرمی کے سچے شہید تجھے پوری قوم کا سلام ۔ لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو تو شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے