تحریر : محمد اشفاق راجا دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جن کا جدید مربوط طریقے سے موثر جواب دینا چاہیے۔ دہشت گردوں کے خلاف خصوصی کومبنگ آپریشن شروع کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کو ہدایت کی کہ وہ کوئٹہ واقعہ سے جڑے کسی بھی فرد کو ٹارگٹ کرنے کے لیے ملک میں جہاں بھی جانا پڑے جائیں۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد وزیراعظم اور آرمی چیف نے جو ہدایات دی ہیں۔ ان کی افادیت سے انکار نہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ کومبنگ آپریشن کے بغیر اب کوئی چارا ممکن نہیں رہا لیکن، یہ بات شاید بعض حلقوں کو ناگوار گزرے ، کہ سانحہ کوئٹہ کی طرح کے واقعات کے بعد، قائدین کی طرف سے اس قسم کے بہت بیانات سننے میں آئے، یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے، کچل دیں گے۔ بلکہ اور بھی بہت کچھ۔ پھر بھی حملے ہو رہے ہیں۔
اے پی ایس پر حملے کے بعد، ضرب عضب آپریشن یقینا بہت موثر اور مربوط کارروائی ثابت ہوئی۔ دہشت گردوں نے فاٹا اور خیبرپختون خوا سے شکست کھا کر بلوچستان کا رخ کر لیا ہے۔ آپریشن کی طوالت بھی، کارروائیوں کو غیر موثر کر رہی ہے۔ ان واقعات کا ایک اور منفی نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ لوگوں کے حوصلے پست اوروہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردوں کے لیے بلوچستان اس لیے بھی آسان ہدف ہے۔ کہ یہاں، ”را” کا نیٹ ورک موجود ہے۔ بھارت علیحدگی پسندوں کو پیسہ، تربیت اور اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے دور سے لے کر ج تک بڑے تواتر سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بلوچستان میں ”را” کی موجودگی کے ثبوت مل گئے ہیں لیکن کبھی بھارت سے کھل کر بات نہیں کی گئی۔
حتیٰ کہ بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ پاکستان آئے تو یہ ثبوت ان کے حوالے نہیں کیے گئے۔ پھر یہ بھی ثبوت ہیں، کہ ”را” کو این ڈی ایس کا بھرپور تعاون اور رہنمائی حاصل ہے۔ ہمیں بھارت اور افغانستان سے کھل کر بات کرنی چاہیے، جو دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کو غیر موثر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر ”را” اور این ڈی ایس گٹھ جوڑ ختم ہو جائے، تو دہشت گردی کے واقعات خود بخود ختم ہو جائیں گے، کیونکہ دہشت گردوں کے مقامی سہولت کاروں اور ”را” اور این ڈی ایس کی مثلث مل کر سانحہ کوئٹہ ایسی سازشیں تیار کر لیتے ہیں اور پھر ان پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔ بہر حال اس صورتِ حال کا توڑ کرنے کے لیے ہمیں بھارت اور افغانستان سے دو ٹوک بات کرنی چاہیے۔
Quetta Civil Hospital Blast
گزشتہ روز کا سانحہ کوئٹہ بھی پاکستان کے امن دشمنوں کی مشترکہ سازش تھی۔ جس کے تانے بانے نہایت ہوشیاری سے بنے گئے۔ پہلے بلوچستان بار کے صدر بلال انور کاسی کو شہید کیا گیا۔ پھر ان کی نعش سول ہسپتال لائی گئی جہاں ان کے ساتھیوں کا پہنچنا فطری عمل تھا۔ یوں جب بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو گیا، تو پہلے سے تیار کردہ خود کش حملہ ا?ور سے دھماکا کرا دیا گیا۔ اس سارے واقعہ کو دیکھنے کے بعد، معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی جان لیتا ہے کہ ایسی منصوبہ بندی اکیلی حزب الاحرارکے کرنے کا کام نہیں۔ یقینا اس ناپاک منصوبے میں کئی لوگوں کا ہاتھ ہے۔ ضرب عضب ا?پریشن شروع ہوا تو ایک بیس نکاتی پلان وضع کیا گیا۔ جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا۔ 16دسمبر2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے 145 افراد کو شہید کر دیا، جن میں 132 کم سن طالب علم بھی تھے۔
ایس ایس جی نے کارروائی کر کے ساتوں دہشت گرد ہلاک کر کے 960 بچوں اور سٹاف پر مشتمل یرغمالیوں کو رہا کر لیا۔ 24دسمبر کو تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے 20نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا مرتب ہوا،اس کاوزیر اعظم نے ٹیلی وڑن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا۔ اس کی بڑی اہمیت یہ تھی کہ دہشت گردوں کو معاشرے کی طرف سے ملنے والی سپورٹ منقطع کرنا تھا۔ فوج نے تو ضرب عضب آپریشن کے ذریعے اپنے ذمے کا کام پوری مہارت اور جانفشانی سے مکمل کر لیا لیکن جہاں تک نیشنل ایکشن پلان کا تعلق ہے۔ اس پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوا اور نہ ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کو کچل دینے کے منصوبے میں یہ ایک بہت بڑی خامی تھی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غفلت کے باعث باقی رہ گئی۔
اگر آج بھی نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل ہو جائے تو دہشت گردوں کاگلا گھونٹا جا سکتا ہے۔ ہم (دہشت گردی کے خلاف) حالت جنگ میں ہیں۔ ہم تساہل اور غفلت کے متحمل نہیں ہو سکتے جو بھی کرنا ہے، بڑی تیزی، مستعدی اور فعالیت کے ساتھ کریں۔ عسکری اداروں کی طرح سول ادارے بھی اپنا کردار ادا کریں، حالت جنگ میں ترجیحات بدلنا پڑتی ہیں؛ البتہ وار ہیسٹریا کا شکار ہوئے بغیر ترجیحات بدلی جائیں۔ یہی کومبنگ آپریشن کا تقاضا ہے۔