تحریر: سید توقیر زیدی چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں، سہولت کاروں اور سیلپر سیلز کے خلاف مْلک بھر میں تلاشی آپریشنز شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کی انتہائی قدر کرتی ہے۔ وادء شوال کے دورے کے دوران انہوں نے آپریشن کے آخری مرحلے میں پیش رفت کا جائزہ لیا اور پاک افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے آخری گڑھ کا خاتمہ کرنے میں مصروف افسروں اور جوانوں کے ساتھ سارا دِن گزارا۔ فارمیشن کمانڈر نے پاک فوج کے سربراہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آپریشن کا آخری مرحلہ شروع کرنے کے بعد800 مربع کلو میٹر کا علاقہ محفوظ بنا دیا، جبکہ بہت سارے دہشت گرد مارے جا چکے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے شوال آپریشن کی کامیاب تکمیل کو سراہا اور مقاصد کے حصول کے لئے فوجی جوانوں کی قربانیوں، غیر معمولی کامیابیوں، بہادری اور اْن کے عزم کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے آپریشن سے حاصل ہونے والے مقاصد کو مستحکم بنانے اور عارضی طور پر بے گھر افراد کی واپسی کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔
شمالی وزیرستان کی وادء شوال کے علاقے میں جو افغان سرحد کے ساتھ ملحق اور دشوار گزار ہے آپریشن فروری میں شروع کیا گیا تھا ، تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ شمالی وزیرستان کا پورا علاقہ اب دہشت گردوں سے صاف ہو گیا ہے تاہم اْن کے سہولت کار چونکہ مْلک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور دہشت گردوں کی طرح اْن کے مخصوص ٹھکانے اور علاقے بھی نہیں ہیں اِس لئے انہیں مْلک بھر میں تلاش کرنا ہو گا۔یہ آپریشن اگرچہ دہشت گردوں کے خلاف براہِ راست آپریشن کی طرح تو نہیں ہو گا تاہم اس کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے کیونکہ فاٹا سے باہر دہشت گرد جو کارروائیاں کرتے ہیں وہ ان سہولت کاروں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، دہشت گرد شہروں میں چْھپ چھپا کر اپنے اِن سہولت کاروں کی مدد ہی سے اپنے ٹارگٹ تک پہنچتے ہیں، چار سدہ یونیورسٹی میں افغانستان سے آنے والے جس دہشت گرد نے کارروائی کی اْس کے سہولت کار تو اسے طور خم سے بس میں سوار کر کے پشاور لائے اور پھر انہی سہولت کاروں کی مدد سے وہ کارروائی میں کامیاب ہوا، ان سہولت کاروں کے خلاف آپریشن بھی دہشت گردوں کی طرح ضروری اور کارآمد ہو گا۔
افغانستان، قبائلی علاقے یا ایسے ہی کسی علاقے سے جو دہشت گرد کارروائی کی نیت سے لاہور یا دوسرے شہروں کا رْخ کرتے ہیں وہ یہ طویل فاصلہ سیکیورٹی اہلکاروں کی نگاہوں سے بچ کر طے کرتے ہیں، سیکیورٹی کی اہمیت اپنی جگہ تاہم دہشت گرد اسلحہ، خود کش جیکٹیں، گولہ بارود اور اس طرح کا سازو سامان آخر اِسی معاشرے کے اندر سے خریدتے ہیں، پھر اسے چند دِنوں کے لئے ہی سہی کہیں نہ کہیں چھپا کر بھی رکھتے ہیں، جن سے اگر زیادہ نہیں تو دو چار لوگ تو ضرور باخبر ہوتے ہوں گے، پھر جو لوگ اْنہیں اپنے گھروں میں پناہ دیتے ہیں اْنہیں بخوبی علم ہوتا ہے کہ انہوں نے کس شخص کو اپنا مہمان ٹھہرایا ہوا ہے اور وہ کیا واردات کرنے جا رہا ہے۔ اگر دہشت گردوں کو ایسے سہولت کار نہ ملیں تو اْن کی کامیابی کا امکان بہت ہی کم رہ جائے۔
جن ملکوں میں دہشت گردی پر قابو پا لیا گیا اور جہاں آئے روز اِس طرح کی اطلاعات منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں کہ کسی مشکوک شخص کو دیکھ کر اس کی حرکات و سکنات کی وجہ سے قریبی لوگوں نے شور مچا دیا وہ ایسی ہی چوکسی کا نتیجہ ہے، حالانکہ بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ جس شخص پر شْبے کا اظہار کیا جا رہا تھا وہ کوئی دہشت گرد نہیں تھا تاہم اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہاں لوگ آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھے ہوئے اور اپنے گردو پیش کسی بھی غیر معمولی حرکت پر فوراً شور مچاتے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے مسلمان معاشرے میں مسلمان ہی ایسے دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جنہوں نے معصوم بچوں،عورتوں اور دوسرے لوگوں کی تباہی و بربادی کا باعث بننا ہوتا ہے۔ لاہور کے گلشنِ اقبال پارک میں جس دہشت گرد نے 75معصوم جانیں لیں اْسے پناہ دینے میں جن باپ بیٹے کا کردار سامنے آیا ہے اْن میں سے باپ امام مسجد اور بیٹا موّذن ہے۔ اِسی طرح چار سدہ میں بھی ایک مسجد کا امام دہشت گرد کو سہولت دینے کے الزام میں گرفتار ہو چکا ہے۔
فاٹا میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور پورے شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کے بعد آرمی چیف نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر اگر مْلک بھر میں سہولت کاروں کی تلاش کا کام شروع کرنے کی ہدایت کر دی ہے تو یہ بہت ہی مناسب اور بروقت ہے۔ تاہم اس کام میں فوج کو سویلین اداروں کی بھرپور معاونت حاصل ہو گی تو ہی اس میں کامیابی ملے گی، کیونکہ سہولت کاروں کے نہ تو ٹھکانے کسی مخصوص علاقے میں ہیں اور نہ ان کے متعلق متعین معلومات ہیں کہ وہ کہاں ہیں وہ کسی بھی گلی، محلے، قصبے، شہر، مسجد، سکول، تعلیمی ادارے، دکان، شاپنگ مال غرض کہیں بھی ہو سکتے ہیں، اْن کی تلاش کا کام آسان نہیں ہے تاہم ناممکن بھی نہیں ہے، لیکن اس کے لئے پورے معاشرے کو اپنا مزاج بدلنا ہو گا، آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور دماغ سے حاضر باشی کا مظاہرہ کرنا ہو گا کسی بھی مشکوک سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر متعلقہ اداروں کو دینا ہو گی اور پولیس حکام کو بھی کسی بھی اطلاع پر روایتی سستی کے مظاہرے سے گریز کرنا ہو گا اور ہر اطلاع کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ مجموعی طور پر افرادِ معاشرہ پر زیادہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے اس کے بغیر سہولت کاروں کی تلاش ممکن نہیں، اگر معاشرے سے دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو سہولت کاروں کو ختم کرنا ضروری ہے۔