جوہر ٹائون دھماکہ “تحقیقات”سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ دہشت گردی کی اس کاروائی میں بھی براہ راست بھارت ملوث ہے جس کے ٹھوس شواہد بھی مل چکے ہیں ۔چند روز قبل میں نے اپنے کالم “پاکستان میں حالیہ بھارتی دہشت گردی “میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ تحریر کی تھی کہ دہشت گردی کی اس کاروائی میں بھی حسب روایت بھارت اور اسکے حواری ممالک امریکہ اور اسرائیل شامل ہیں ۔وفاقی وزیر فواد چوہدری ،مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف اور آئی جی پنجاب انعام غنی نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے دنیا کو لاہور دھماکے اور اس میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت پیش کئے اور مودی سرکار کی دہشتگرد کاروائیوں کو ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔
ڈاکٹر معید یوسف نے بتایا کہ جوہر ٹائون دھماکہ تفتیشی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے سائبر اٹیک کیے جس دن دھماکہ ہوا اس دن ہزاروں انویسٹی گیشن انفراسٹرکچر پر سائبر حملے ہوئے ۔بھارت کب تک کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے الزام لگاتا رہے گا،یہ کیسا ڈرون حملہ تھا جو بھارت میں ہوا اور نقصان بھی نہیں ہوا ۔پاکستان کی کوشش آخر تک یہی رہے گی کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل ہو اور افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال نہ ہو ادھر امریکہ افغانستان میں ذلیل ورسوا ہوکر واپس جانے پر مجبور ہوا ۔امریکہ نے اپنی اجاراداری کو قائم رکھنے کے لیے پاکستان سے اڈوں کا مطالبہ کیا جس پر مرد حُر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کردیا اور امریکہ بھارت کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔
امریکہ ،بھارت کا اصل ہدف اور نشانہ ہمیشہ سے پاکستان ہی رہا ہے ڈاکٹر معید یوسف نے بتایا کہ دھماکے کے ماسٹر مائنڈ بھارتی شہری ہے اور اسکا تعلق بھارتی ایجنسی راء سے اس وقت تمام ملزمان حراست میں ہیں ۔بھارت نے دہشتگرد حملوں کے لیے تیسرے ملک کے ذریعے مالی معاونت کی ہے ۔کشمیر میں بھارتی جارحیت سے پوری دنیا واقف ہے مگر اس وقت خود کو انسانی کے علمبردار کہلوانے والا امریکہ خاموش کیوں ہے ۔بھارت پچھلے 73سالوں سے کشمیر کے معاملے میں ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہے مگر اس کے باوجود بھی امریکہ ہمیشہ سے بھارت کا ساتھ دیتا آرہا ہے ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی منطق سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی زد میں بھی رہے اور گرے لسٹ میں بھی ۔حافظ محمد سعید کے جوکہ اس وقت پابند سلاسل ہیں انکے گھر کے باہر دھماکہ کروانے مقصد ملک میں افراتفری اور انتشار کو پھیلانا تھا ۔الحمدللہ دشمن اس مقصد میں ناکام ہوا ہے اور مزید بھی کبھی کامیاب نہیں ہوگا ۔بھارت نے پاکستان کی سا لمیت کیخلاف پروپیگنڈہ وار شروع کر رکھی ہے۔
پلوامہ ڈرامہ ، ارنب گوسوامی کا چیٹ گیٹ سکینڈل ، اسلحہ کی دوڑ اور گلگت بلتستان کوفتھ جنریشن وارکا ہدف بنایا گیا ہے ۔ اس سلسلے میںانکشاف گلگت بلتستان کے نوجوان مہدی شاہ رضوی کے وطن مخالف بیانیے کیلئے استعمال ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرناہے۔مہدی شاہ رضوی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انٹرنیشنل فورمز، مافیاز کے اکسانے اور لالچ پر ہی ان کے والد حیدر شاہ رضوی نے بھی پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کیا۔ مہدی شاہ کے مطابق اٹلی میں امجد مرزا نے گلگت بلتستان کو انڈیا کا حصہ قرار دیتے ہوئے اشتعال دلا کر پاکستان کے خلاف مظاہرے کرنے پر اکسایا۔ صرف یہی نہیں بلکہ امجد ایوب مرزا نے پیسے دے کر یہ یقین بھی دلایا کہ انڈیا ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ مجھے لالچ دے کر پاکستان کے خلاف یورپ (اٹلی) میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر احتجاج پر مجبور کیا گیا۔ اٹلی سے جاری شدہ اس احتجاج کی ویڈیوز میں فوج اور اداروں کے خلاف تمام سکرپٹ لکھ کر دیا گیا اور پھر اسے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کیا گیا۔
ان تمام دنوں میں مجھے اقوام متحدہ میں نمائندگی کا لالچ دے کر کہا گیا کہ مناسب وقت پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔ پاکستان کے خلاف آن لائن کانفرنسوں کا حصہ بھی بنتا رہا۔امجد ایوب مرزا، سجاد راجہ، شوکت کشمیری بھی بھارتی خفیہ ایجنسی راکے ایجنٹ ہیں اور بھارت کی طرف سے ملنے والے بھاری فنڈز پر گلگت بلتستان اور کشمیری قوم کو گمراہ کر کے پاکستان کے خلاف ورغلاتے ہیں۔ یہ اظہر من الشمس ہے کہ جنوبی ایشیائی خطے خصوصاً جموں کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور دہلی سرکار کافی عرصے سے عالمی قوانین اور ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہر قسم کی معاندانہ روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ بھارتی لیڈر شپ نے پاکستان کو جغرافیائی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی سازشوں کا قیام پاکستان کے وقت سے ہی آغاز کر دیا تھا۔کشمیر پر بھارت نے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے تسلط جمایا ، اکھنڈ بھارت کی داعی بھارتی ہندئو قیادتوں نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت اس خطہ کو کبھی امن و سکون سے نہیں رہنے دیا۔
کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دینا بھی اسی سازش کا حصہ تھا جس پر تسلط جما کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس بھارت نے اس پر اپنا اٹوٹ انگ ہونے کی ہٹ دھرمی اختیار کی۔ پاکستان کے پاس بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کرنے کے ثبوت موجود ہیں۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول حملے کا ماسٹر مائنڈ حملے کے وقت بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را” سے رابطے میں تھا۔ ”را” نے ایک پڑوسی ملک میں موجود سفارتخانہ کے ذریعے چائنیز قونصلیٹ’ پی سی بی گوادر اور سٹاک ایکسچینج پر حملہ کرایا، ”را” افسروں کی نگرانی میں افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دہشت گرد تنظیموں کو ضم کرکے لاکھوں ڈالرز دینے کی خبر بھی منظر عام پر آئی۔
پاکستان چین مشترکہ اقتصادی راہداری (سی پیک) کوثبوتاژ کرنے کیلئے بھی بھارتی ”را” نے اپنے حاضر سروس جاسوس دہشت گرد کلبھوشن کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلایا جسے پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کی سرپرستی حاصل تھی، اس نیٹ ورک کی تخریبی کاریوں کے ثبوت بھی پاکستان نے حاصل کئے جن پر مبنی ایک مربوط ڈوزیئر تیار کرکے اقوام متحدہ کے سیکرٹیریٹ اور امریکی دفتر خارجہ میں پیش کیا گیا مگر امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے باعث اس ڈوزیئر کو درخوداعتناء ہی نہ سمجھا گیا۔ افغان جنگ میں پاکستان کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے دوران بھارت نے کابل انتظامیہ کو ساتھ ملا کر پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کی جہاں دہشت گردوں کی تربیت اور فنڈنگ کرکے انہیں افغان سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل کیا جاتا جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرکے بھارتی سرپرستی میں افغان سرحد کے ذریعے واپس چلے جاتے۔ نیز 65ء کی جنگ ہو یا 71ء کی، بھارت نے سوائے زہر اگلنے کی اور کچھ نہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں منفی کردار نبھاتا رہا یہاں تک کہ بنگلادیش الگ ہوگیا۔
پاکستان نے کئی مرتبہ مسئلہ کشمیر بیٹھ کر بات چیت سے حل کرنے کی دعوتیں دیں لیکن مثبت کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔بھارت کے بالا دستی کے مذموم عزائم نے علاقے کا امن برباد کرکے رکھا ہوا ہے۔ مودی سرکار بھارت کو جدید اور روایتی ہر قسم کے اسلحہ اور جنگی سازوسامان سے لیس کرکے پاکستان کی آزادی’ خودمختاری اور سلامتی پر اوچھے وار کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ اسکے عزائم کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سب تیاریاں پاکستان کی سلامتی پر شب خون مارنے کی ہی کوشش ہیں۔ بلا شبہ بھارت کا جنگی جنون خطے میں پائیدا ر امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کو ایک طرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی طرف سے نافذ کئے گئے بدترین کرفیو کو ختم کرانے،مظلوم کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حق خود ارادیت دلانے جبکہ دوسری جانب افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا ء کے دوران پیدا ہونے والے سیاسی اور سکیورٹی بحران پر قابو پانے کے لئے بین الاقوامی تعاون کی اشد ضرورت ہے لہٰذا ان نازک حالات میں وطن عزیز کو گھمبیر مسائل سے چھٹکارہ دلانے کیلئے ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی حکومت وقت کا بھرپور ساتھ دینا چاہئیے ۔کشمیر میں نہتے شہریوں پر مودی کی جارحیت و درندگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی لہٰذا اب بھارت بین الافغان مذاکراتی عمل کو ناکام بنانے کے درپے ہے یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں قیام امن کی کوششوں کو زائل ہونے سے بچانے کیلئے ”بنیئے”کی مذموم سازشوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔
درحقیقت مودی کی انتہا پسند پالیسی ایک تباہ کن خطرہ بن چکی ہے اگرفوری نوٹس نہ لیا گیا تو اس کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ داعش اور بھارتی گٹھ جوڑ ، سری لنکا کے ایسٹر بم دھماکے 2017ء ،بھارت کے پاکستان اور افغانستان میں موجو دہشت گردی نیٹ ورکس سے روابط ،سرپرستی اور ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں،کشمیر میں بھی بھارت میں موجود انہی عناصر نے کردار ادا کیا۔شام کی لڑائی میں بھی بھارتی دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔کابل میں سکھ گوردوارہ پر حملے میں بھی بھارتی دہشت گرد ملوث تھے اب لاہور میں حالیہ دھماکے میں بھی بھارتی سرپرستی کا انکشاف ہوا۔ امریکی نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے حوالے سے بھارت کو کابل انتظامیہ کی معاونت سے پاکستان کو دہشت گردی کے ذریعے اندرونی عدم استحکام سے دوچار کرنے کے زیادہ مواقع ملے ۔ بھارت ایک طرف پاکستان کو مات دینے کی سرتوڑ سعی کررہا ہے دوسری جانب وہ سی پیک کے ضمن میں چین کو گرانا چاہتا ہے اور یہی امریکہ کی خواہش ہے جس کیلئے دونوں ممالک یعنی بھارت اور امریکہ دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔لہذاا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری مودی کی خطے میں بڑھتی دہشت گردی کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے پر زور دے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ساتھ ” سی پیک ”اور” ون روڈ ون بیلٹ” کی صورت میں اس خطے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے نادرموقع سے بھرپور طریقے سے استفادہ کیا جا سکے۔