کوئٹہ شہر پھر دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے گزشتہ دنوں تین اکٹھے خودکش حملے کیے گئے ہیں بعد ازاں کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے افراد کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مار ڈالا گیا انہوں نے دھرنا دیا اور بھوک ہڑتال کی وزیر داخلہ منانے کے لیے گئے مگر انہوں نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیااور چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ سے ملے بغیر احتجاج ختم نہ کرنے کا اعلان کردیا جنرل باجوہ گئے ان کے عمائدین سے مذاکرات کرکے ان کا احتجاج ختم کروایاہزارہ برادری کے افراد مستقل فرقہ وارانہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ فرقہ واریت کے زہر کا توڑتو صرف اللہ اکبر تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ اس نام پر تمام مسالک متحد رہ سکتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ابھی تک دہشتگردوں کا مکمل قلع قمع نہیں کیا جا سکا بلوچستان بین الاقوامی سامراجیوں ،مفاد پرستوں اور پاک وطن کے دشمنوں کا ہمیشہ سے ہی ٹارگٹ رہا ہے اس لیے یہاں مکمل نارمل حالات بمشکل سے ہی پیدا ہو سکتے ہیںگو کہ علیحدگی پسندوں سے افواج نے مذاکرات بھی کیے ہیں جس سے ان کی خاصی تعداد افواج کی خصوصی مہربانیوں اور فلاحی کاموں سے قومی دھارے میں شامل ہو چکی ہے مگر کیا کیا جائے سیاست میں پیسے کے عمل دخل کا؟کہ ملک دشمن قوتیں کروڑوں کے حساب سے بھاری سرمایہ خرچ کرکے نئے ایجنٹس ڈھونڈھ لیتی ہیں !را کی سرگرمیاں بھی بلوچستان میں عرصہ دراز سے جاری ہیں جس کے ثبوت بھی پاکستانی حکومت بین الاقوامی فورمزپرپیش کرتی رہتی ہے کلبھوشن بھی مکمل نیٹ ور ک کے ساتھ پکڑا گیا تھا مگر شاید بین الاقوامی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں کہ ہم کھلم کھلا ملک دشمنوں کو پکڑ کر بھی قرار واقعی سزا نہیں دے پاتے کچھ موجودہ حکمرانوں کا جھکائو مودی اور اسطرح بھارت کی طرف رہا ہے (شاید کاروباری مصلحتوں کے تحت ) ذاتی کاروباری وسعتیں صنعتکارحکمرانوں کو لے ڈوبتی ہیںویسے بھی اکثر و بیشتر دنیا بھر میں کاروباری اور صنعتکار شخصیات کے حوالے ملکوں کی باگ ڈور نہیں دی جاتی کہ اسطرح وہ اپنے کاروبار کو ہر قسم کے ملکی و قومی مفادات پر ترجیح دیتے رہتے ہیںویسے بھی اکثر راقم سمیت موُثر کالم نویس لکھ چکے ہیں کہ موجودہ لادینی غیر اسلامی جمہوریت کا نتیجہ خواہ کسی طرح نکال لیں کانوں کو دایاں ہا تھ ،بایاں ہاتھ یا دونوں ہا تھوں سے پکڑ لیویں نودولتیے سود خور سرمایہ دار ،ڈھیروں منافع خور صنعتکار ،پرانے وڈیرے ،ظالم جاگیردار،خوانین اورکرپٹ جغادری سیاستدان(کسی نہ کسی روپ میں ) ہی جیتتے رہیں گے۔
اسی لیے عمران خان کا نئی قیادت کا فارمولہ کبھی کا دفن ہو چکا اور وہ بھی غالباً نہ چاہتے ہوئے انہی لالچی کرپٹ مفاد پرست سیاستدانوں کو اچکنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں کہ یہ حرام ذرائع سے کمایا گیا کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلی کی سیٹیں جیت سکتے ہیں جس سے پارٹی حکومتیں قائم ہو سکتی ہیں اور ذاتی طور پر وزیر اعظم بننے کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو سکے گا سیاست در اصل پوری دنیا میں ہی نہیں بلکہ بالخصوص پاکستان میں تو کبھی کا کاروبار بن چکی کہ کروڑوں لگائو اربوں کمائو کا فارمولہ چل رہا ہے سرمایہ دار طبقات کے لیے 45تا 50ہزارووٹو ں کو خریدنا کوئی کام ہی نہ ہے بلکہ اِسے وہ اپنے بائیں ہا تھ کا کھیل سمجھتے ہیں اس لیے تمام بڑی سیاسی جماعتیں راندۂ درگاہ طبقات سے بھری پڑی ہیں اور انہیں نام نہاد پارٹی لیڈران خوش آمدید کرتے اور ان کے آگے آنکھیں بچھاتے نہیں تھکتے اب عمران ہو یا نواز یا آصف زرداری یا پھر کٹھ ملائیت کے علمبرداران جب کروڑوں روپے چندہ کی صورت میں وصول کرکے اپنی پارٹی ٹکٹیں کرپشن کے حمام میں نہائے ہو ئے افراد کے حوالے کریں گے تومنتخب ممبران اربوں نہ کمائیں گے تو اور کیا کریں گے ؟ کہ کاروبار میں لگا ہو اسرمایہ کوئی بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا پھر یہاں تو سیاسی کاروبار میں لگا ہواروپیہ دنوں ہفتوں میں ہی کئی گنا بڑھ جاتا ہے نئی سڑکیں پلازے سکولزپانی کی ڈگیاں صاف پانی کے پلانٹس عمارتوں و سڑکوں کی مرمت ،فلائی اوورز اور نہ جانے کیا کیا ایسے کام نہ ہیں جن کو ممبران نے اپنے سیاسی آقائوں سے بھاری رقوم لیکر کرنا ہوتا ہے۔
ایسے سیاستدانوں کی پانچوں انگلیاں ہی نہیں بلکہ سراور پائوں بھی گھی کی کڑاہی میں ہو تے ہیں کسانوںکو ہی قرضے دلوادو تو بھی کروڑوں بچ رہتے ہیں اور ووٹر بھی بمع اہل و عیال اور قریبی دوسست احباب کے پکے ہو جاتے ہیں کمانڈو جنر ل نے ایک فون کال پر امریکہ کی تابعداری کرکے عرصہ دراز سے ہمیں دو ہرے تہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے پرائی لڑائی میں پڑ کر ہم نے 70000سے زائد سویلین واداروں کے افسروں و نوجوانوں کی قربانی دے ڈالی ہے مگر امریکہ بہادر یہودیوں کی شہ پر ہمیں میلی آنکھوں سے دیکھنے سے باز نہیں رہ سکاہم خوامخواہ نکو بن کر رہ گئے ہیں مغربی بارڈرز مکمل محفوظ تھے مگر کتوں کو گلے میں لٹکا کر فوٹو کھچوانے اور مغربی دنیا میں اپنے آپ کو لبرل شو کروانے والاہمارے بیرون ملک بھاگے ہوئے سابق صدرصاحب کی وجہ سے ہماری یہ سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو کر رہ گئیں ہیں وہاں بھی اکثر ہماری جنگ جاری رہتی ہے ہمیں مغربی بارڈر پر اربوں کے خرچہ سے آہنی باڑ لگانا پڑ رہی ہے افغانی مسلمان پاکستانی ہوائی اڈوں سے ستر ہزار سے زائد حملوں کا ہمیں ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
حتیٰ کہ زہر یلی گیسیں برسا کرپہاڑوں کی غاروں کے اندر بھی موجود افراد ہلاک کیے گئے امریکہ بہادرتو بالآخر کھربوں ڈالر خرچ کرکے افغانستان میں شکست پاکرواپس نکل جائے گامگر ہمیںیہ پہاڑی جنگجو افراد شاید کبھی معاف نہ کرسکیںپھرسامراج کے پروردہ جناب مشرف کی ساری وارداتوں کانتیجہ ہمیں ہی بھگتنا ہو گا ہزاروں افرادکو ڈالروں کے عوض بیرون ممالک بھیجنے کے “کارنامہ کی شہرت” بھی ہمارے ہی کمانڈو کے حصہ میں لکھی جا چکی ہے اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ ہمارے ہاں موجود بچے کچھے دہشت گردوںکو راہ راست پر لانے کے لیے مزید عملی اقدامات کریں جو کہ افواج پاکستان بخوبی کر بھی رہیں ہیں ہر لحظہ خود کش حملے اور دہشت گردانہ کاروائیاں قطعاً ہمارے ملکی مفاد میں نہ ہیں۔جنرل قمر جاوید باجوہ ہی اس کا بہترین حل ڈھونڈھ سکتے ہیں اور مستقلاً کوئٹہ جیسی وارداتوں کو روکنے کے انتظامات بخوبی کرسکتے ہیں کہ سول حکمران تو اپنے ہی کرپشنی معاملات میں ملوث ہو کر “مصروف خاص “ہیںہماری دنیا بھر کی اولین قرار دی گئی آئی ایس آئی اس کا بہترین حل نکال کر اس پر عمل در آمد کروائے تو ستے خیراں ہو جائیں گی انشاء اللہ۔اسطرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی۔