19، اگست 2013 کو، وزیرآعظم میاں نواز شریف نے قوم سے خطاب کیا ،اخبارات میں کسی نے پانچ کالمی شہ سرخی لگائی کسی نے چھ کالمی اور کسی نے آٹھ کالمی وزیر آعظم نے کہا مذاکرات سے ہو یا پھر بھر پور ریاستی طاقت کے ساتھ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہوں عسکریت پسندی کی راہ اختیار کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں یہاں مذکرات کی دعوت اور ساتھ ہی ریاستی طاقت کی برائے نام دھمکی بھی، روز نامہ مشرق پشاور نے 14 اگست کو بی بی سی کے حوالے سے یہ اہم خبر دی کہ طالبان نے وزیرستان کے قبائل میں پمفلٹ تقسیم کئے جن میں حکومت کو یہ کھلی دھمکی تھی کہ اگر عدالتوں سے سزائے موت پانے والے طالبان کی سزاؤں پر عملدر آمد کیا گیا تو یہ حکومت کی جانب سے طالبان کے خلاف اعلان جنگ ہو گا، اور تحریک طالبان حکومت کے خلاف اپنی جوابی کاروائیاں شروع کر دے گی طالبان نے متوازی حکومت یا ایک طاقت کے حکومت پاکستان کو دھمکی دی،ایسی دھمکی ایک طاقت دوسری طاقت کو دیتی ہے۔ بعض دانشور اور دینی راہنما یہ کہتے ہیں اگر بھارت کے ساتھ مذاکرات ہو سکتے ہیں تو طالبان سے کیوں نہیں، بات تو معقول ہے، ایک صاحب تو اتنے بیچین ہیں کہ طالبان کی دھکی کے بعد جب حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تو حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ فوراً طالبان سے مذاکرات کرے، ( مگر مذاکرات سے پہلے عسکریت پسندوں، دہشت گردوں یا طالبان کی قانونی حثیت کا تعین تو کیا جائے کہ ….)مگر بھارت ٧٥ کروڑ آبادی کا بہت بڑا جمہوری ملک اور ایٹمی طاقت، تاہم اُس کے ساتھ برابری کی سطح پر ہی بات چیت ہوتی ہے کہ اُس کے ساتھ چند بنیادی تنازعات ہیں جن کیلئے مذاکرات کئے جانے چاہئے، مگر یہاں اہم سوال ہے کہ طالبان کے ساتھ کون تنازعات جن کے لئے مذاکرات ضروری ہیں…اور پھر مذاکرات تو برابری کی سطح پر ہی ہوتے ہیں۔
جیسے کل ہی تھائی وزیر آعظم پاکستان آئیں اور وزیرآعظم پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہوئے مگر عسکریت پسندوں، جنہیں دہشت گرد بھی کہا جاتا ہے کو مذاکرات کے لئے کیا حثیت دی جائے گی، اور پھر خود کش حملوں، بم دھماکوں ،دہشت گردانہ کاریوں سے جتنے معصوم شہری مارے گئے، ان کے خون کا حساب کون دے گا، مذاکرات کا ایجنڈا کیا ہو گا….دینی رانماؤں خصوصاً جماعت نے کبھی خود کش حملوں پر روائتی مذمتی بیان نہیں دیا، بلکہ ہمیشہ ایسی کاروائی کو بھارت اور امریکہ کے کھاتے میں ڈالا ،یہ سچ بھی ہے ان کے پاس جدید اسلحہ اور سرمایا کہاں سے اور کون دیتا ہے اُس کے کیا مقاصد …اِس میں بھی کوئی ابہام نہیں ،کہ کون اسلحہ، سرمایہ، اور جدید تربیت دیتا ہے۔ لاہورکے گنجان علاقے گرین ٹاؤن سے القائدہ یا طالبان کا انٹرنیشنل کمیونیکیشن سنٹر پکڑا گیا، صرف یہی نہیں بہت کچھ اور بھی ..یہ ایک لفظ ہے دہشت گردوں کا ٹھکانہ، اس پر روزانہ کتنا خرچ ہو تاہے یہ حساب میری سمجھ میں نہیں…اب یہ کون اور کس ذریعہ سے کر رہایہ کوئی راز کی بات بھی نہیں ….. گزشتہ تاریخ پڑھنے کی کوشش کی جائے تو کچھ کچھ سمجھنے میں مدد مل جاتی ہے۔
Taliban
جو دھمکی طالبان نے دی اور حکومت نے فوری یو ٹرن لیا سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی ور اسی وقت ایل او سی پر بھی بھارت کی طرف سے اشتعال انگیز کاروائی جاری ہے اور بھارتی فوج کے سربراہ جرنل بکرم سنگھ نے کہا ہے حالات جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں پاکستان نے مسلط کی تو سمبھلنے کا موقع نہیں دینگے …لوک سبھا میں وزیر مملکت برائے داخلہ آر پی این سنگھ نے کہا کہ پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی سکھ عسکریت پسندوں کو دوبارا متحرک کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ مالی اور اخلاقی معاونت کر رہا ہے ،ایسے وقت میں وقت کا تقاضااور دانشمندی یہ ہے کہ اپنی شہ رگ جس پر طالبان کا انگوٹھہ ہے کو چھڑائیں یہ صرف وزیرستان کے طالبان ہی نہیں پیچھے ایک بڑی طاقت ہے، اگر تو یہ پاکستانی شہری ہیں ،تو انہون نے جمہوری حکومت کی رٹ تسلیم نہیں کی دوسرے ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے آئین کو بھی تسلیم نہیں کرتے، تو پھر کیا ان سے کوئی بات چیت ہو سکتی ہے، کیا ملک کے ساتھ غداری کے زمرے مہیں نہین آتے؟ قاتلوں کی سزاؤں پر عملدرآمد روک دینے سے دیگر قاتلوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی جمعرات کو وزیرآعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت کابیبنہ کی دفائی کمیٹی کا اجلاس ہوأ، اجلاس ی خاص بات کہ سول حکومت اور فوج کی ساری کریم موجود تھی، اور فیصلہ کیا کہ شدت (یہ نہ کہیں بلکہ طالبان کے نام سے ایک منظم تنظیم جس نے ١٤، اگست کی یہ دھمکی، اگر ہمارے ساتھیوں کو پھانسی دی تو یہ اعلان جنگ ہو گا، اس دھمکی کے جواب میں حکومت نے ٢٣ ، اگست کو پھانسی پانے والوں کی سزا پر عمل موخر کر دیا، جبکہ طالبان کی دھمکی کا جواب آج یہ تھا کہ قانون و آئین پر عمل کیا جاتا۔
جن لوگوں کو قانون نے مجرم قرار دیکر سزا سنائی ہے ان کی سزا پر عملدر آمد کیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوأ، ہزاروں لوگو ں کے قاتلوں کو یہ کہنا کہ ہتھیار پھینک دیں تو مذاکرات ہونگے، اُنکی تنظیمی حیثیت تسلیم کرنا ہے، ان کا مذاکرات کا ایجنڈا، شمالی یا جنوبی نہیں ریاست وزیرستان کی…اور یہ ایجنڈا اُنہیں دیا گیا ….!!)پسند ہتھیار ڈال دیں تو مذاکرات کریں گے، ورنہ طاقت سے کچل دئے جائیں گے، یہ الفاظ بھی طالبان کی تیظیم کو تسلیم کرنے کے مترادف ہی نہیں بلکہ ہزاروں پاکستانی معصوم شہریوں کا خون معاف کرنا بھی جنہیں میاں صاحب اور فوجی قیادت، عسکریت پسند ،یا دہشت گرد کہتے ہیں۔
اسی دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک ملک میں ٤٥ ہزار سے زائد سولین اور پانچ ہزار سے زیادہ فوجی ماریجا چکے اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، کیونکر محض عسکریت پسند یا دہشت گرد کہ کر بات گول کر دی جاتی ہے، میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کچھ اور لوگوں نے بھی …..یا تو معصوموں کے قاتلوں سے خون کا حساب لیا جائے۔ مذاکرات کا کوئی جواز باقی نہیں، اگر یہ حساب لینا مشکل ہے تو پھر ریاست ہی اُن کے حوالے کی جائے معصوم شہریوں کو نہ مروایا جائے۔