کراچی (جیوڈیسک) انسداد دہشت گردی عدالت نے ڈاکٹر عاصم اور دیگر کے خلاف دہشت گردوں کو پناہ دینے اورعلاج کے مقدمے میں ملزموں کی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا، آئندہ سماعت 18 جون کو ہو گی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کراچی میں ڈاکٹر عاصم اور دیگر کے خلاف دہشت گردوں کو پناہ دینے اورعلاج کے مقدمے کی سماعت میں ڈاکٹر عاصم، ایم کیو ایم کے وسیم اختر، پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل، انیس قائم خانی، عثمان معظم ،ملزمان کے وکلا اور رینجرز کے وکیل بھی موجود تھے۔
وکلا نے ملزمان کے ضمانت کی درخواستوں پر دلائل دئیے۔ رینجرز کے وکیل نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کے دہشت گردوں کا سستا علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے ایم کیو ایم سے گہرے تعلقات رہے ہیں ، الطاف حسین، حیدر عباس رضوی، ندیم نصرت کے کہنے پر ایم کیو ایم کے دہشت گردوں کا علاج کیا۔ آصف زرداری نے انکو لیاری گینگ وار معاملات دیکھنے کے لئے کہا تھا ، ڈاکٹر عاصم نے لیاری گینگ وار کے دہشت گردوں کا علاج کیا ۔ ڈاکٹر عاصم نے بے پناہ کرپشن کی ، زمینوں پر قبضہ کیا۔
کمیشن ، منی لانڈرنگ کی اورغیرقانونی الاٹمنٹ میں ملوث رہے۔ ڈاکٹر عاصم نے مداخلت کی اور کہا کہ رینجرز کے وکیل کو تاریخ و جغرافیہ کا پتہ نہیں۔ رینجرز کےوکیل نے کہا کہ ڈاکٹرعاصم جےآئی ٹی کے سامنے دہشت گردوں کے علاج کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ذہنی و جسمانی بیماری کورٹ سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈاکٹر عاصم تھک چکے ہیں، کسی وقت ٹوٹ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی ضمنات منظور کی جائے، یہ ان کا حق ہے ۔ ڈاکٹر عاصم بار بار بار ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں ان سے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا۔
ایم کیو ایم کے وسیم اختر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت پہلے یہ طے کرے کہ جے آئی ٹی بطور ثبوت قابل قبول ہے یا نہیں۔ یہ مقدمہ مزید انکوائری کا ہے، لہذا عدالت سے استدعا ہے کہ وسیم اختر کی ضمانت کی توثیق کی جائے۔ انیس قائم خانی کے وکیل نے کہا کہ انیس قائم خانی کا مقدمے سے اس کوئی تعلق نہیں۔ گواہ یوسف ستار نے انیس قائم خانی کا ذکر نہیں کیا۔
جے آئی ٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ عدالت نائن زیرو پر چھاپے کے مقدمے میں عامر خان کی ضمانت دے چکی ہے۔ رینجرز کے وکیل نے کہا کہ ہم نے 27 میڈیکل بل پیش کئے۔ ان لوگوں کو کیا تکلیف تھی جس کا علاج کرایا گیا۔ علاج کے بل کی تفصیل درج نہیں کی گئی۔
جن دہشت گردوں کا علاج ہوا ان کے خلاف کئی مقدمات ہیں۔ جان بوجھ کر دہشت گردوں کی تفصیلات چھپائی گئیں۔ رینجرز بل بناتی تو شیراز کو 84 سال نہیں 28 سال کا لکھتی۔ طرفین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور سماعت 18 جون تک ملتوی کر دی۔