دہشتگردی، خانہ جنگی اور فرقہ ورانہ فسادات کی ایک اذیت ناک لہر ویسے تو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے لیکن کراچی اس وقت ان فسادات، ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کی بھینٹ چڑ ھنے میں سر فہرست ہے کو ئی ایسا دن نہیں ہے کہ جب کراچی سے دہشتگرادانہ کاروائی، ٹارگٹ کلنگ یا فر قہ ورانہ فسادات سے متعلق خبر سننے کو نہ ملی ہو، کراچی میں دہشتگردی کی زد میں آنے والوں میں اکثریت بے گناہ اور معصوم شہریوں کی ہے، نوکری پر جانے والا کراچی کا ہر شہری یہی تصور ذہن نشین کر کے جاتا ہے کہ یقینا آج کسی بھی طرف سے آنے والی اندھی گو لی اس کو دبوچ لے گی جو یہ بھی نہیں جانتی ہو گی۔
کہ اس کی نسل کی پرورش کرنے والا اس کے بعد کوئی نہ ہو گا، خاندان کا واحد کفیل، اس کی بیوی بچے اس نفسا نفسی کے عالم میں اس کے بعد در بدر کی ٹھو کریں کھائیں گے اس کے معصوم بچے جو اپنے پاپا کے انتظار میں رات بھر سو نہیں پائیں گے اور صبح باپ کی لاش دیکھ کر اپنی معصومیت پر آنسو بہا کر ساری زندگی دوسروں کے محتاج بن کر کسمپری کی زندگی بسر کریں گے۔ احمد مشتاق کا یہ شعر کراچی والوں کے ان حالا ت کی خوب عکاسی کرتا ہے کہ مشغلہ خوب ملا ہے میری تنہا ئی کو ہاتھ سے ناپتا ہوں زخم کی گہرائی کو یہ بات تھی اندھی گو لی کی جو ان سب احساسات و جذبات سے ماورا ہے۔
کیو نکہ اس میں ا نسانیت نہیں ہو تی لیکن انسانوں کی انسانیت کہاں مر گئی، ان کے ضمیر اس قدر مر دہ ہو چکے ہیں کہ ظالموں کو کچھ بھی نہیں سو جھتا ہمارے ہاں ایک با ت زبان زدِ عا م ہے کہ ”ایک انسان کا قتل پو ری انسانیت کا قتل ہے ”اُس وقت ہماری انسانیت، احساس کا وہ جذبہ وہ اخلاقی قدریں کہاں فنا ہوتیں ہیں جب سینکڑوں بے گناہوں کو قتل کیا جاتا ہے صد افسوس کہ جن کو جان و مال کی حفاظت پر مامور کیا گیا ہے جن کو ماہانہ تنخواہیں بمعہ الائونس دی جاتی ہیں وہ بھی بے گناہ شہریوں کے قتلِ عام پر قابو پانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں اور بے بس نظر آ رہے ہیں یا پھر بے بس کر دیے گئے ہیں؟یہ ایک سوال ہے۔
pakistan
جو کہ معلق ہو کررہ گیا ہے ایک بات تو واضح ہے کہ یہ سر زمین اس وقت تمام قسم کی دہشتگردی کے سا تھ ساتھ سیاسی دہشتگردی کا شکاربھی رہی ہے قارئین محترم صر ف کراچی میں دہشتگردی کے باعث ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے کراچی پاکستان کی معا شی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی حثییت رکھتا ہے بالخصوص تاجروں سے بدمعاشی اور بھتہ خوری نے شریف النفس تاجروں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے روزانہ کی بنیاد پر تاجر احتجاجی مظاہرے اور حکومت کو ڈیڈ لائن دے کر تھک چکے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق دہشت گردی کے باعث 2012-2013ء تک پاکستان کو 92 ارب ڈالر کی مالیت کے نقصانات کا سامنا ہے۔
جبکہ مو جودہ دور معاشی ترقی کا جا رہا ہے، پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کے بعد معا شی دھماکوں کی ضرورت ہے جس کی راہ میں دہشت گردی کی رکا وٹ حائل ہے۔ جو ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چٹ کیے جا رہی ہے پوری دنیا میں معاشی جنگ اپنے عروج پر ہے جس کی مثال ہمارے ہمسائے ملک بھارت کی ہی لے لیجئے، ایک سروے کے اعدادو شمار کے مطابق بھارت میں ستر فیصد لوگ روزانہ دو وقت کے کھانے سے محرو م ہیں بھو ک و افلاس اپنے عروج پر ہے لیکن معاشی جنون میں مبتلا بھارت اپنی معیشت کو مستحکم کرنے میں دن رات ایک کر رہا ہے۔
اور ہم معیشت میں اپنی پوزیشن بنا نے کی بجائے دہشت گر دی کی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں دہشت گردی کی اس جنگ نے نہ صرف معیشت میں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں پاکستان کو سالوں پیچھے لاکھڑا کیا ہے جس کی بدولت ہم بجائے ترقی کرنے کے تنزلی کی جانب رواں ہی اس امر سے بھی سبھی بخوبی واقف ہیں کہ اگر کراچی کے حالات بہتر نہ ہوئے تو ملکی معیشت مستحکم ہو سکے گی نہ ہی ملک میں امن و امان قائم ہو پائے گا۔
کراچی پاکستان کے وجود کا ایک اہم حصہ ہے وجود کے ایک ادنیٰ سے حصے میں معمولی درد لاحق ہو تو سارا جسم بے چین ہوتا ہے کراچی تو پاکستا ن کے ایک اہم حصے کی حثییت رکھتا ہے پھر کیسے کراچی میں امن قائم کیے بغیر پورا وجود یعنی پاکستان ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے اب کراچی کے حالات ایک گھمبیر صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔ جن کے لئے اب خاطر خواہ اقداما ت حرف آخربن چکے ہیں اس حوالے سے وزیر داخلہ کی تجاویز قابل غور اور اقداما ت قابل ستائش ہیں کراچی کو تمام تر مفادات سے بالاتر ہو کر (depoliticize)کیا جائے ْکسی سے کسی بھی قسم کا سیاسی انتقام نہ لیا جائے، پولیس، رینجرز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی ایجنسز کو فری ہینڈ دے کر ایک ٹارگٹڈ آپریشن کے لئے راہ ہموار کی جائے۔